Advertisement

Wednesday 17 November 2021

سکول میں ویکسین لگانے آۓ۔ وانیہ اورآمنہ کی کہانیاں

 

سکول میں ویکسین لگانے آۓ ۔ وانیہ اور آمنہ کی کہانیاں


،'نہیں ، نہیں٠٠٠٠ مس مجھے جانے دیں۔ نہیں۔۔۔۔'

'میری ماما نے بھی منع کیا تھا لیکن آپ میری بات ہی نہیں سن رہیں۔'

آپ کی ماما نے اجازت نامے پر دستخط کر دیۓ تھے اور اس کی تصویر واٹس' ایپ کردی تھی۔ چلیں اب آگے ہوں باقی بچوں کو بھی قطار میں آنا ہے۔ آپ رو رو کر سب کو پریشان کر رے ہیں،'۔

اذلان کچھ دیر کے لۓ خاموش ہوگیا اور اپنی ہمت بندھانے لگا۔ لیکن جیسے ہی قطار میں سے دو بچے کم ہوۓ اور پیچھے والے بچے آگے کھسکے تو پھر ڈر کر کانپنے اور چیخنے لگا۔ کچھ ہی دیر میں اس کی باری بھی آنے والی تھی۔

اذلان کچھ خیال کریں۔ کتنا لمبا قد ہے اور اچھے خاصے صحت مند بھی ہیں' ساتویں جماعت میں آکربچوں کی طرح رو رہے ہیں۔  وہ دیکھیں چھوٹے بچے بھی ہنس رہے ہیں'۔ مس زینب نے اسے ڈانٹا۔


'کچھ نہیں ہوگا۔ آپ کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔'

وہاں اذلان ہی نہیں بہت سے اور بچے بھی پریشان کھڑے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ جو بچہ فارغ ہو جاتا وہ اپنا بازو پکڑے آہستہ آہستہ جماعت کی طرف جاتا۔

'بالکل بھی درد نہیں ہوا'


'بس تھوڑا سا پتہ چلا تھا'

کچھ بچے تو ہنستے کھیلتے سب کو بتارہے تھے اور کچھ آنکھوں میں پانی کو

 روکے مسکرا رہے تھے کہ کچھ بھی تو نہیں ہوا۔

وانیہ بھی ایک طرف اپنی دوستوں کے ساتھ اپنی باری کا انتظار کر رہی تھی۔ جب
 اگلے پیریڈ کی گھنٹی بج گٸ۔


 شکر ہے اب ہسٹری کا پیریڈ تو یہہں گزر جاۓ گا۔ آہستہ آہستہ چلو تاکہ ریاضی کی کلاس بھی ختم ہو جاۓ،' منیبہ منہ پر ہاتھ رک کر آہستہ سے بولی۔

آج تو ریاضی کا ٹیسٹ بھی ہے۔ تم نے تیاری کی۔ مجھے تو کل اتنی نیند آرہی تھی 
کہ جلدی سو گٸ بس تھوڑا سا ہی پڑھا تھا'۔

میں تو کل۔۔۔۔'

خاموش ۔۔۔'
'،چلیں قرة العین آپ کی باری

'سیدھا بازو آگے کریں۔۔۔'

جیسے ہی نرس نے سرنج اوپر کی تو پچھے کھڑی وانیہ کی تو جان ہی نکل گٸ۔

'آ ۔۔۔ آ۔۔۔۔'

یہ لیں روٸ سے تھوڑا مل لیں اور بازو کچھ دیر اوپر کی طرف رکھیں۔' نرس نے' ہدایت دی اور وانیہ کو آگے بلایا۔

'نرس نے کہا تھا کہ کچھ دیر بازو اوپر رکھنا۔'

وانیہ ویکسین لگوا کر آٸ تو دیکھا کہ منیبہ بازو نیچے کر کے چل رہی تھی۔

'ایسے ہی کہتے ہیں۔ میں ٹھیک ہوں۔'

افسوس ہم میتھ کی کلاس سے پہلے فارغ ہو گۓ۔ ہماری جماعت کے سب بچوں' کو ویکسین لگ گٸ ہے سواۓ اذلان کے'۔

اذلان اب قطار میں سب سے آخر میں کھڑا تھا اور کوٸ طریقہ سوچ رہا تھا کہ کس طرح بغیر ویکسین لگواۓ وہاں سے کھسکا جاۓ۔

دوسری طرف وانیہ کی چھوٹی بہن آمنہ کی جماعت بھی ویکسین لگواکر فارغ ہوگٸ تھی۔ چھوٹے بچوں کو تو ویکسین لگوانے کے بعد ایک ایک ٹافی بھی دی گٸ تھی۔ بہت سے بچوں بلکہ سب نے ہی ایک ٹافی کےلۓ انجیکشن لگوایا تھا اور روۓ بھی نہیں تھے۔ اب سب مزے سے ٹافیاں کھا رہے تھے۔

سکول میں آج پڑھاٸ کرنے کا کسی کا موڈ نہیں تھا لیکن مس زینب تو کبھی بچوں کی جان چھوڑ ہی نہیں سکتی تھیں۔ وہ جماعت میں داخل ہوٸیں اور واٸٹ بورڈ پر میتھ کا ٹیسٹ لکھنے لگیں۔


مس آج ٹیسٹ نہ لیں۔۔۔پلیز پلیز۔۔۔،' بچے شور مچانے لگے۔'



منیبہ کے بازو میں اب درد اور اکڑاٶ ہو رہا تھا لیکن وہ کسی کوبتانا نہیں چاہتی تھی۔ میز پر حساب کی کتابیں پڑھی تھیں- ابھی بچے ٹیسٹ کے لۓ کاپیاں نکال ہی رہے تھے کہ اچانک باہر اندھیرا چھا گیا۔

ی 'یہ کیا ہوا ابھی تو دھوپ نکلی ہوٸ تھی۔ بادل کیسے آگۓ؟' مس زینب نے پریشان ہو کر کھڑکی سے باہر دیکھا۔

مس یہ بادل تو نہیں لگ رہے۔ یہ تو جیسے سبز رنگ کی دھند چھا گٸ ہے،' وانیہ نےباہر دیکھتے ہوۓ کہا۔

ابھی سب بچے کھڑکی کی طرف دیکھ رہے تھے کہ اچانک ایک سبز رنگ کی بارش  شروع ہو گٸ ۔ سبز رنگ کے چھوٹے چھوٹے قطرے کھڑکی کے شیشوں پر گرنے لگے۔ سب خوفزدہ ہوگۓ۔ اس سے پہلے کہ وہ جماعت سے باہرجاتے وہ سبز قطرے رینگتے ہوۓ جماعت میں داخل ہو گۓ اور  بچوں کی حساب کی کاپیوں اور کتابو ں کو چاٹنے لگے۔

سب خوفزدہ ہو کر کھڑے ہوگۓ۔

ایسی ہی سبز مخلوق آمنہ کی جماعت میں بھی داخل ہو گٸ تھی۔ وہ چھوٹے چھوٹے سبز رنگ کے پانی کے قطرے تھے جن کی دو آنکھیں اور ایک منہ تھا۔ ان کی ناک نہیں تھی اور نہ ہی کان تھے۔ وہ صرف کاغذ کھارہے تھے اور بڑے ہوتے جارہے تھے۔ کافی بچے تو ان سبز قطروں کے درمیان میں پھنس گۓ ۔ وہ بالکل سبز رنگ کا مادہ کسی چپکنے والی چیز کی طرح ان کے ہاتھوں اور پاٶں پر لگ گیا تھا۔ اب کوٸ چل نہیں پا رہا تھا۔ جو بھی چلنے کی کوشش کرتا وہ گر جاتا۔

'بچو ہمارے سکو ل کے پاس جو کاغذ بنانے کی کیمیکل فیکڑی ہے۔ اس میں سے غلطی سے کچھ گیسیں لیک ہو گئیں ہیں جو پھیل کر آسمان پر بادل بنا رہی ہیں۔ ان گیسوں کی وجہ سے یہ ہمارے سکول پر یہ سبز بارش ہورہی ہے۔ پولیس اور دوسرے ادارے اسے ختم کرنے کی کوشش کر رہے  تب تک ہمیں انتظار کرنا ہو گا ۔ ،' مس زینب بھی اس سبز مادے میں لپٹی سب کو بتا رہی تھیں۔

تب ہی وانیہ نے غور کیا کہ وہ سبز قطرے کچھ کاغذ کھا کر تو بڑے ہو جاتے اور 

کچھ کھا کر چھوٹے ہو جاتے- 

-سنومیرے اس ایک آٸیڈیا ہے،' وانیہ کچھ سوچتے ہوۓ بولی-

،'سب بچے اپنی اپنی اردو کی کتابیں اور کاپیاں نکال کر میز پر رکھ دیں۔'

وانیہ نے یہ کیا اور قرة العین اور منیبہ نے بھی ایسے ہی کیا۔ اب وہ سبز قطرے تیزی سے اردو کی کتاب کھانے لگے۔ جیسے ہی انھوں نے اردو کی کتاب منہ میں ڈالی تو وہ چکرا گۓ۔ بہت سے قطرے والی مخلوق تو منہ سے اردو نکالنے لگی لیکن اردو کے لفظوں نے تو ان کے دماغ کا راستہ ہی بند کر دیا تھا۔ ان تینوں کے اوپر سے سبز مخلوق بھاگنے لگی۔ باقی سب نے  بھی ایسا ہی کیا۔

بازو میں درد کی وجہ سے منیبہ سے کتاب نہیں نکل رہی تھی۔ وانیہ نے اس کی مدد کی۔'

اب جن سبز قظروں کو حساب کا مضمون پسند نہیں تھا وہ ایک طرف پڑے تھے اور اردو کھانے والے دوسری طرف بے حال پڑے تھے-

آمنہ کی جماعت کے بچے تو ڈر کر جماعت میں ایک طرف اکٹھے ہو گۓ تھے۔ ابھی بچوں نے پڑھاٸ شروع نہں کی تھی اس لۓ میز خالی تھے  جب انھیں میزپرکچھ نہ ملا تو وہ سبز قطروں والی مخلوق ایک طرف رکھے بچوں کے پراجیکٹ کھانے لگی۔

پہلے تو انھوں نے صفاٸ کے بارے میں بناۓ پراجیکٹ کھاۓ پھر سال کے چار موسموں کے پراجیکٹ بھی ہڑپ کر گۓ۔ اب وہ دوسری طرف ر کھے وقت دیکھنے والے پراجیکٹ کی طرف بڑھ رہے تھے۔ اس پراجیکٹ میں بچے بہت ہی پیارے پیارے کلاک بنا کر لاۓ تھے۔ بچوں نے کلا ک کے گھنٹہ اور منٹ والے ہاتھ بھی بناۓ تھے۔ پھولوں والے، ستاروں والے، اور پرندو ں والے دیوار پر لگانے والی گھڑیوں کے ماڈل تھے۔ وہ سنز قطرے تیزی سے اس طرف بڑھ رہے تھے۔
میں اپنا وقت والا پراجیکٹ نہیں کھانے دوں گی آمنہ جلدی سے آگے بڑھی کہ وہ اپنا پراجیکٹ وہاں سے اٹھا ے تب ہی ایک سبز قطرہ اس کے ہاتھ پر چپک گیا۔

دوسری طرف وانیہ کی جماعت میں کچھ سبز قطرے اب دوبارہ اٹھنے کی کوشش کر رہے تھے-کے بعد چکرارہے تھے 

یہ لو ہسٹری چاٹو پھر پتہ چلے گا ،'۔۔'

تب ہی قرةالعین نے اپنی ہسٹری کی کتاب نکالی اور میز پر رکھ دی وہ سب قطرے ہسٹری کی کتاب کے ساتھ چپک گۓ اور کھانے لگے۔ تاریخیں , نقشے، سلطنتیں، اتنا کچھ ہضم کرنا مشکل تھا۔ جو قطرہ ہسٹری کی کتاب کھاتا وہ چکرا کر گر جاتا اور زمین میں غاٸب ہو جاتا۔ بچوں نے انھیں باقی کتابیں بھی دیں لیکن جو نتیجہ اردو اور ہسٹری نے کیا وہ کوٸ اور نہ کر سکا۔ سب بچوں نے مل کر اپنی جماعت کو اس سبز مخلوق سے آزاد کروالیا تھا۔



اُدھرآمنہ اپنے ہاتھ سے سبز قطروں کو ہٹانے کی کوشش کر رہی تھی کہ اس کا ہاتھ اپنے لنچ باکس میں چلا گیا- اسے کو یاد آیا کہ صبح اس کی ماما نے لنچ میں انڈےوالا سینڈوچ دیا تھا جو اس

 کا کھانے کو بالکل دل نہیں چاہ رہا تھا۔ وہ سبز قطرے اب سینڈوچ کھانے لگے اور آمنہ کے ہاتھ سے اتر گۓ-
 ۔اس کی دوست حرا نے اپنا پراٹھا بھی میز پر رکھ دیا۔ ارے یہ کیا سینڈوچ اور انڈہ پراٹھا کھا کر تو وہ سبز قطرے بڑے ہوگۓ۔

'اب کیا کریں؟'

 پھر کچھ بچوں نے انھیں بازار والے چپس اور جوس دیا تو وہ قطرےچکرا کر گرنے لگے اور غاٸب ہونے لگے۔ 

کچھ دیر میں جماعت مں سکون 
ہوگیا۔


فیکڑی کا مالک گرفتار ہو گیا ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا ہے کہ اس کیمیکل کی عمر کچھ دیر ہوتی ہے۔ یہ کچھ دیر بعد ہوا میں تحلیل ہو کر ختم ہو جاتا ہے۔ اس لۓ ہم سب اب محفوظ ہیں۔

وہ سبز کیمیکل خو بخود نہیں بلکہ ہماری اردو اور ہسٹری کی کتابیں کھا کر ختم' ہوۓ ہیں،'۔
  
میں نے تو اسے اپنے جغرافیہ اور انگریزی کی کتاب بھی کھلا دی تھی۔،'وانیہ نے اپنی آدھی کھاٸ ہوٸ کتاب اٹھا کر سب کو بتایا

،'آپ لوگ پریشان نہ ہوں فیکٹری کا مالک نٸ کتابوں کے پیسے دے گا'

کیا وہ کاپیوں پر ہماراکام بھی کر دے گا'
،'یہی اس کی اصل سزا ہو  گی۔

وہ سب پہلے تو بہت خوفزدہ تھے اب خوش تھے کہ پڑھاٸ نہیں ہو گی۔


،' یہ اذلان کہاں یے؟ بہت دیر سے نظر نہیں آیا۔'
-اچانک مس زینب کو خیال آیا

سب بچوں نے مڑ کر دیکھا تو اذلان جماعت میں نہیں تھا۔

آمنہ کا لنچ تو وہ سبز مخلوق کھاگٸ تھی۔ اب اس کے پاس بس ایک ٹافی رہ گٸ تھی۔ چھٹی کا وقت ہونے والا تھا اسلۓ وہ ٹافی کھا کر انتظار کرنے لگی جب اس کی نظر کھڑکی سے باہر کھڑے ایک سبز انسان پر پڑی۔

وہ زور سے چلانے لگی۔ سکول کے چوکیدار اوراستاد اس طرف بھاگے تو دیکھا کہ وہ تو ساتویں جماعت کا بچہ اذلان تھا ۔ اذلان ویکسین لگوانے کے ڈر سے وہاں چھپ گیا تھا۔ جب اس سبز مخلوق نے حملہ کیا تو باقی بچے تو ویکسین لگوانے کی وجہ سے بچ گۓ لکن وہ مخلوق اس کے ساتھ چپک گٸ تھی ۔ اب وہ بالکل ایک بیما ر بھوت لگ رہا تھا۔

وہ شرمندہ بھی تھا اور 
پریشان بھی۔

اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ اب

 تو آپ کو ہمیشہ ایسے ہی رہنا پڑے گا۔ ویکسین ایسے انجیکشن ہوتے ہیں جو آ پ کو بیماریوں کے حملوں اور اثرات سے بچاتے ہں۔ اگر وہ جراثیم آپ کے جسم میں چلے بھی جاٸیں تو ویکسین کی طاقت ابھیں مار دیتی ہے۔ جو ویکسین نہیں لگواتا وہ آپ کی طرح ہو جاتا ہے۔ مس زینب نے اذلان کو بتایا۔
کیا اب اذلان ہمیشہ ایسے 
رہے گا؟

کل تک تو ایسے ہی رہنا پڑے گا۔ کل سکول میں دوبارہ ویکسین والے آٸیں گے  اذلان چاہے تو لگوا سکتا ہے
جی جی میں ضرور لگواٶں گا
اذکان نے سبز مادہ اپنے منہ سے ہٹاتے ہوۓ کہاتو سب بچے ہنسنے لگے۔


بچوں ہماری فیکڑی کے مالک سے بات ہوٸ ہے اس  کے مطابق

ہاں ہاں یہ میری اردو کی تو ساری کتاب کھا لو۔

سکول میں صبح سے ہی خسرہ کی ویکسین لگوانے والی ٹیم آٸ ہوٸ تھی۔

Advertisement