سلسلہ :
ٹوپی والا لڑکا
کہانی ١
کالا بھوت
'کالا بھوت۔۔۔۔،'
یہ سننا تھا کہ سب بچوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ڈر کے مارے سب کے رونگٹے کھڑے ہو گۓ۔ وہاں تو سر سے پاوں تک ایک کالا انسان یا کوئ بھوت بیٹھا تھا جس کے منہ سے کالی جھاگ رہی تھی۔ وہ کالی جھاگ اس کے سارے منہ اور جسم پر پھیل رہی تھی۔ بچے چیخیں مارنے لگے کـھ بچوں نے تو ڈر کر آنکھیں بند کرلیں۔ کچھ بچے کمرے سے باہر جانے لگے۔
۔”رُکو میں کالا بھوت نہیں۔ میں تو منیب ہوں۔ پتہ نہیں مجھے کیا ہوگیا ہے ؟“' منیب چیخ رہا تھا لیکن کوئ اس کی بات نہیں سن رہا تھا۔
”بیٹھ جائیں سب بیٹھ جائیں اور مجھے بتایئں کہ ایسا کیا ہوا ہے جو منیب کی ایسی حالت ہو گئ ہے۔،“ مس فوزیہ نے بچوں کو بیٹھنے کو کہا۔
'مس یہ حمزہ نے کیا ہو گا! وہ کالی سیاہی لایا ہوگا۔ اس کی منیب سے لڑائ جو ہو گئ ہے،' بچوں نے مس فوزیہ کو بتایا۔
'حمزہ اور منیب کی لڑائ یہ بہت عجیب بات تھی۔ دونوں بہت پرانے دوست تھے۔ حمزہ بہت سمجھدار اور سلجھا ہوا بچہ تھا لیکن منیب جذباتی اور شرارتی تھا۔ جانے کس بات پر دونوں ایک دوسرے سے ناراض ہو گۓ تھے،' مس فوزیہ نے سوچا۔
منیب نے تو فوراً نۓ دوست بنا لۓ تھے اور وہ خوش بھی لگ رہا تھا۔ البتہ حمزہ غصے میں تھا۔ بچے مس فوزیہ کو ساری بات بتانے لگے۔
اس کے بعد سائنس کی جماعت تھی۔ منیب کا ہوم ورک پورا نہیں تھا۔ پہلے منیب کاپی لینے حمزہ کی طرف آیا کیونکہ وہ اور حمزہ ہمیشہ مل کر کام کرتے تھے لیکن اچانک رک گیا اور علی کی طرف بڑھ گیا اور جان بوجھ کر اس سے ہنس ہنس کر باتیں کرنے لگا۔ اب وہ اپنے نۓ دوستوں کے ساتھ مل کر حمزہ کا مذاق اڑانے لگا۔
حمزہ کو یہ سب دیکھ کر سخت غصہ آرہا تھا۔ حمزہ نے آگے بڑھ کر منیب کو کک لگائ۔ منیب تو جیسے موقع کی تلاش میں تھا۔ وہ بھی علی اور عبدالاحد کے ساتھ مل کر حمزہ کو مارنے لگا۔ تب ہی مس ماہا آگئیں۔ منیب نے مس کو بتایا۔ مس نے منیب کو تھوڑا سا ڈانٹا اور کام کروانے لگیں۔ حمزہ کی آنکھوں میں آنسو آگۓ۔ اس نے منیب سے بدلہ لینے کا سوچ لیا تھا۔
اب آدھی چھٹی کا وقت تھا۔ بڑے سے میدان میں بچے مزے سے کھیل رہے تھے۔ منیب بھی اپنے دوستوں کے ساتھ پکڑن پکڑائ کھیل رہا تھا۔ ابھی وہ علی اور عبد الاحد کو پکڑنے ہی والا تھا کہ چند بڑے لڑکوں نے اسے گھیر لیا۔ یہ آٹھویں جماعت کے لڑکے تھے۔ ان میں سے ایک حمزہ کا بڑا بھائ تھا۔
منیب نے گبھرا کر ادھر ادھر دیکھا تو اسے ان بڑے لڑکوں کے پیچھے حمزہ نظر آیا جو بڑے غرور سے مسکرا رہا تھا۔
'ہم تو نہیں تنگ کرتے بلکہ حمزہ نے میری پینسل توڑی تھی ۔۔ ،'۔
'جواب دیتے ہو آگے سے ۔۔۔لگتا ہے اس چوتھی جماعت کے بچے نے ہم سے مار کھانی ہے،' دوسرا بڑا لڑکا مکہ بناتے ہوےبولا۔
'ہاں ہاں مارو اسے ۔۔۔،' پیچھے سے حمزہ کی آواز آئ۔
'اور علی اور عبدالاحد کو بھی مارو۔ ۔۔یہ بھی مجھے تنگ کرتے ہیں۔ ،'
منیب اور اس کے دوستوں نے ویاں سے بھاگنے کی کوشش کی لیکن حمزہ کے بھائ نے اسے پکڑ لیا اور اسے ایک زوردار چپت لگائ۔
'چھوٹے بچوں کو تنگ کرنا بہت بُری بات ہے،' وہ لڑکا منیب اور بڑے لڑکوں کے درمیان میں آگیا۔تم کون ہو؟ کونسی جماعت میں ہو۔
'ارے یہ کیا ہوا٠٠٠؟'
اس بڑے لڑکے کے پا وں رُک گۓ تھے ۔باوجود کوشش کے وہ چل نہیں پا رہا تھا۔ ٹوپی والا لڑکا ہنس رہا تھا۔
'کیا کِیا ہے تم نے۔ رُکو ذرا'،
ایک دوسرے لڑکے نے بلا اٹھایا اور ٹوپی والے لڑکے کے پیچھے بھاگا لکین جیسے اس کے اور باقی سب کے درمیان کوئ نہ نظر نہ آنے والی دیوار آگئ تھی۔ وہ سب لڑکے رک گۓ تھے۔ وہ سب ڈر کر بھاگ گۓ۔
موقع ملتے ہی منیب اور اس کے دوست ایک طرف بھاگ کھڑے ہوۓ۔ ٹوپی والے لڑکے نے دیکھا کہ حمزہ بہت حسرت اور غصےسے منیب اور اس کے دوستوں کو بھاگتے دیکھ رہا تھا۔
'”کیا ہوا اتنا غصہ۔۔۔ کس بات پر لڑائ ہوئ ہے تم لوگوں کی؟“ ٹوپی والا لڑکا حمزہ کے پاس آیا۔
'منیب بہت برا بچہ بن گیا ہے۔۔۔وہ بات بات پر گالیاں دیتا ہےحلانکہ پہلے وہ بہت اچھا تھا۔ میری امی نے مجھے کہا بھی تھا کہ منیب سے دوستی ختم کردو ورنہ تم بھی ایسے ہی بن جاو گے۔ لیکن میں نے پھر بھی ایسا نہیں کیا کیونکہ مجھے لگتا تھا کہ منیب پھر سے اچھا بچہ بن جاۓ گا،'
'ہاں یہ تو ہے کہ گالی دینے والا بز دل اور کمزور ہوتا ہے ۔ وہ گندا بچہ ہوتا ہے اور کوٸ بھی اسے پسند نہیں کرتا۔ وہ سامنے والے کو غصہ دلوانا چاہتا ہے تاکہ پھر وہ اس کے غصے کا فائدہ اٹھاۓ۔ وہ تمہارے غصے کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ تم بھی تو منیب جیسے بن رہے ہو اور اسے مار پٹوانے کے لۓ اپنے بھائ کو لے آۓ۔ یہ بھی بہت بُری بات ہے۔ تم اس کی باتوں کو نظر انداز بھی کر سکتے ہو اور تم اسے آرام سے بھی سمجھا سکتے ہو یا اس سے دوستی ختم کردو ،' ٹوپی والا لڑکا اسے سمجھاتے ہوۓ بولا۔
'تم ٹھیک کہہ رہے ہو لیکن اس نے مجھے گالی دی ہے۔ میں اسے ماروں گا۔۔۔ ضرور ماروں گا۔ تم پتہ نہیں کون سی جماعت سے آگۓ ہو۔۔۔ جاٶ یہاں سے،' حمزہ غصے سے بولا۔
اگلے دن مس فوزیہ کا پیریڈ تھا۔ اچانک بچوں نے دیکھا کہ منیب کی ز بان کالی ہو رہی تھی اور اس کے منہ سے کالی جھاگ نکل کر اس کے ناک پر چپکنے لگی۔ اب وہ بالکل ایک بھوت لگ رہا تھا،' بچے ڈر گۓ۔
۔”اوہ تو منیب کے منہ سے کالی جھاگ گالی دینے کی وجہ سے نکل رہی ہے اگر منیب معافی مانگ لے تو ٹوپی والا لڑکا اسے ٹھیک کر سکتا ہے،“ مس فوزیہ نے کہا۔
'ٹوپی والا لڑکا!' بچے حیرت سے بولے۔
تب ہی ٹوپی والا لڑکا اپنی ٹوپی کا بٹن دبا کر کھڑکی سے اندر آگیا کیونکہ وہ تو اپنے آپ کو موٹا اور بہت پتلا بھی کر سکتا تھا۔
'میں وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی کسی کو گالی نہیں دوں گا اور جھوٹ بھی نہیں بولوں گا،' منیب نے ساری جماعت سے معافی مانگ لی۔
'منیب کا باقی رنگ تو ٹھیک ہو جاۓ گا لیکن ناک چھٹی کے وقت تک کالی رہے گی۔ اگر منیب اپنی بات پر قائم رہا تو شام تک ناک بھی صاف ہو جاۓ گی،' ٹوپی والا لڑکا بولا۔
کچھ دیر میں منیب کا کالا رنگ ٹھیک ہو گیا اور شام تک ناک بھی صاف ہوگئ لیکن اب جب بھی اس سکول کا کوئ بچہ کسی کو گالی دیتا ہے تو اس کے منہ سے کالی جھا گ نکل کر اس کی زبان اور ناک کو کالی کر دیتی ہے اور وہ کالا بھوت بن جاتا ہے۔ یہاں تک کہ بچہ معافی مانگتا ہے اور دوبارہ گالی نہیں دیتا وہ کالا بھوت ہی بنا رہتا ہے۔ اب چوتھی جماعت کا ماحول پھر سے اچھا ہو گیا ہے۔ سب بچے ایک دوسرے کے ساتھ آرام سے بات کرتے ہیں اور غصے میں بھی ایک دوسرے کو گندی باتیں نہیں کہتے اور گالی نہیں دیتے۔
مس فوزیہ بہت خوش ہیں ۔