Advertisement

Saturday, 19 March 2022

کالا بھوت۔ اردوکہانی۔ سیریز۔ ٹوپی والا لڑکا

 


 سلسلہ : 

ٹوپی والا لڑکا

Urdu kahani for kids _topi wala larka


کہانی ١



کالا بھوت

Kala bhoot- urdu kahani for kids horror



'چپ کر جاٸیں،“آہ”
‎‎ ۔ چہارم جماعت! آخری دفعہ کہہ رہی ہوں“، مس فوزیہ باقاعدہ چیخ رہی تھیں لیکن بچے خوب شور مچا رہے تھے۔ کوئ ہاتھ سے پٹاخے بجا رہا تھا تو کوئ گانے گا رہا تھا
تھوڑی دیر بعد کوئ بچہ شکایت لے کر آ جاتا کہ مِس مجھے اس نے مارا ہے ۔مِس مجھے اس نے گالی دی ہے۔ چوتھی جماعت کا ماحول کچھ دن سے بہت خراب ہو گیا تھا۔ مس فوزیہ کافی پریشان تھیں۔ اب انھوں نے اپنی جماعت کا ماجول ٹھیک کرنے کا سوچ لیا تھا۔

مس فوزیہ اب ڈسٹر میز پر بجا رہی تھیں کہ اچانک علی نے دیکھا کہ اس کے ساتھ ایک کالا بھوت بیٹھا ہوا تھا۔ابھی کچھ دیر پہلے ہی تو وہاں منیب بیٹھاہوا تھا۔ کچھ دیر تو علی کی گگی بندھ گٸ۔ اس کویقین نہیں آیا پھر اس نے زورسے چیخ ماری

'کالا بھوت۔۔۔۔،'

یہ سننا تھا کہ سب بچوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ڈر کے مارے سب کے رونگٹے کھڑے ہو گۓ۔ وہاں تو سر سے پا‎وں تک ایک کالا انسان یا کوئ بھوت بیٹھا تھا جس کے منہ سے کالی جھاگ رہی تھی۔ وہ کالی جھاگ اس کے سارے منہ اور جسم پر پھیل رہی تھی۔ بچے چیخیں مارنے لگے کـھ بچوں نے تو ڈر کر آنکھیں بند کرلیں۔ کچھ بچے کمرے سے باہر جانے لگے۔

۔”رُکو میں کالا بھوت نہیں۔ میں تو منیب ہوں۔ پتہ نہیں مجھے کیا ہوگیا ہے ؟“' منیب چیخ رہا تھا لیکن کوئ اس کی بات نہیں سن رہا تھا۔

”بیٹھ جائیں سب بیٹھ جائیں اور مجھے بتایئں کہ ایسا کیا ہوا ہے جو منیب کی ایسی حالت ہو گئ ہے۔،“ مس فوزیہ نے بچوں کو بیٹھنے کو کہا۔

'مس یہ حمزہ نے کیا ہو گا! وہ کالی سیاہی لایا ہوگا۔ اس کی منیب سے لڑائ جو ہو گئ ہے،' بچوں نے مس فوزیہ کو بتایا۔

'حمزہ اور منیب کی لڑائ یہ بہت عجیب بات تھی۔ دونوں بہت پرانے دوست تھے۔  حمزہ بہت سمجھدار اور سلجھا ہوا بچہ تھا لیکن منیب جذباتی اور شرارتی تھا۔ جانے کس بات پر دونوں ایک دوسرے سے ناراض ہو گۓ تھے،' مس فوزیہ نے سوچا۔ 

 منیب نے تو فوراً نۓ دوست بنا لۓ تھے اور وہ خوش بھی لگ رہا تھا۔ البتہ حمزہ  غصے میں تھا۔ بچے مس فوزیہ کو ساری بات بتانے لگے۔

  پہلے حمزہ نے غصے دکھانے کے لۓ منیب کی پینسل توڑ دی۔
وہ تو شکر ہے علی نے فورا اسے ایک فالتو  دے
پینسل دے دی تھی ورنہ مس تو اسے پورا پیریڈ کھڑا رکھتیں۔

اس کے بعد سائنس کی جماعت تھی۔  منیب کا ہوم ورک پورا نہیں تھا۔ پہلے منیب کاپی لینے حمزہ کی طرف آیا کیونکہ وہ اور حمزہ ہمیشہ مل کر کام کرتے تھے لیکن اچانک رک گیا اور علی کی طرف بڑھ گیا اور جان بوجھ کر اس سے ہنس ہنس کر باتیں کرنے لگا۔  اب وہ اپنے نۓ دوستوں کے ساتھ مل کر حمزہ کا مذاق اڑانے لگا۔


Urdu kahani-topi wala larka


حمزہ کو یہ سب دیکھ کر سخت غصہ آرہا تھا۔ حمزہ نے آگے بڑھ کر منیب کو کک لگائ۔  منیب تو جیسے موقع کی تلاش میں تھا۔ وہ بھی علی اور عبدالاحد کے ساتھ مل کر حمزہ کو مارنے لگا۔ تب ہی مس ماہا آگئیں۔ منیب نے مس کو بتایا۔ مس نے منیب کو تھوڑا سا ڈانٹا اور کام کروانے لگیں۔ حمزہ کی آنکھوں میں  آنسو آگۓ۔ اس نے منیب سے بدلہ لینے کا سوچ لیا تھا۔

اب آدھی چھٹی کا وقت تھا۔ بڑے سے میدان میں بچے مزے سے کھیل رہے تھے۔ منیب بھی اپنے دوستوں کے ساتھ پکڑن پکڑائ کھیل رہا تھا۔  ابھی وہ علی اور عبد الاحد کو پکڑنے ہی والا تھا کہ چند بڑے لڑکوں نے اسے گھیر لیا۔ یہ آٹھویں جماعت کے لڑکے تھے۔ ان میں سے ایک حمزہ کا  بڑا بھائ تھا۔

'ہاں بھئ کیا مسئلہ ہے تمہیں؟ کیوں تنگ کرتے ہو میرے بھائ کو؟'
ایک لڑکا منیب کے قریب آکر بولا۔

منیب نے گبھرا کر ادھر ادھر دیکھا تو اسے ان بڑے لڑکوں کے پیچھے حمزہ نظر آیا جو بڑے غرور سے مسکرا رہا تھا۔

'ہم تو نہیں تنگ کرتے بلکہ حمزہ نے میری پینسل توڑی تھی ۔۔ ،'۔

'جواب دیتے ہو آگے سے ۔۔۔لگتا ہے اس چوتھی جماعت کے بچے نے ہم سے مار کھانی ہے،' دوسرا بڑا لڑکا مکہ بناتے ہوےبولا۔

'ہاں ہاں مارو اسے ۔۔۔،' پیچھے سے حمزہ کی آواز آئ۔

'اور علی اور عبدالاحد کو بھی مارو۔ ۔۔یہ بھی مجھے تنگ کرتے ہیں۔ ،'

منیب اور اس کے دوستوں نے ویاں سے بھاگنے کی کوشش کی لیکن حمزہ کے بھائ نے اسے پکڑ لیا اور اسے ایک زوردار چپت لگائ۔ 

منیب اور اس کے دوست پریشان تھے کہ اب وہ کیسے بچ پائیں گے کہ  اچانک ایک ٹوپی والا لڑکا میدان میں آگیا۔ اس لڑکے نے سکول کا یونیفارم یعنی سکول کی ورد ی پہنی ہوئ تھی لیکن وہ عجیب سا لگ رہا تھا۔اس کی آنکھیں بڑی بڑی اور چمکدار تھیں۔   اس کی ناک اونچی اور سیدھی تھی۔  اس کی ٹوپی پر بہت سے بٹن تھے۔ وہ پھرتیلا اور لمبا تھا۔  اس کی عمر بارہ سال کے آس پاس لگ رہی تھی۔ 
وہ بالکل ایک روبوٹ لگ رہا تھا۔

'چھوٹے بچوں کو تنگ کرنا بہت بُری بات ہے،' وہ لڑکا منیب اور بڑے لڑکوں کے درمیان میں آگیا۔تم کون ہو؟  کونسی جماعت میں ہو۔

رُکو تمہارا بھی علاج کرتے ہیں،' ایک بڑا لڑکا آگے آیا۔

'ارے یہ کیا ہوا٠٠٠؟'

اس بڑے لڑکے کے پا‎‎‎‎‎ ‎وں رُک گۓ تھے ۔باوجود کوشش کے وہ چل نہیں پا رہا تھا۔ ٹوپی والا لڑکا ہنس رہا تھا۔

'کیا کِیا ہے تم نے۔  رُکو ذرا'،

ایک دوسرے لڑکے نے بلا اٹھایا اور ٹوپی والے لڑکے کے پیچھے بھاگا لکین جیسے اس کے اور باقی سب کے درمیان کوئ نہ نظر نہ آنے والی دیوار آگئ تھی۔ وہ سب لڑکے رک گۓ تھے۔ وہ سب ڈر کر بھاگ گۓ۔

  موقع ملتے ہی منیب اور اس کے دوست ایک طرف بھاگ کھڑے ہوۓ۔ ٹوپی والے لڑکے نے دیکھا کہ حمزہ بہت حسرت اور غصےسے منیب اور اس کے دوستوں کو بھاگتے دیکھ رہا تھا۔

'”کیا ہوا اتنا غصہ۔۔۔ کس بات پر لڑائ ہو‎ئ ہے تم لوگوں کی؟“ ٹوپی والا لڑکا حمزہ کے پاس آیا۔

'منیب بہت برا بچہ بن گیا ہے۔۔۔وہ بات بات پر گالیاں دیتا ہےحلانکہ پہلے وہ بہت اچھا تھا۔ میری امی نے مجھے کہا بھی تھا کہ منیب سے دوستی ختم کردو ورنہ تم بھی ایسے ہی بن جا‎و گے۔ لیکن میں نے پھر بھی ایسا نہیں کیا کیونکہ مجھے لگتا تھا کہ  منیب پھر سے اچھا بچہ بن جاۓ گا،'

'ہاں یہ تو ہے کہ گالی دینے والا بز دل اور کمزور ہوتا ہے ۔ وہ گندا بچہ ہوتا ہے اور کوٸ بھی اسے پسند نہیں کرتا۔ وہ سامنے والے کو غصہ دلوانا چاہتا ہے تاکہ پھر وہ اس کے غصے کا فائدہ اٹھاۓ۔ وہ تمہارے غصے کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ تم بھی تو منیب جیسے بن رہے ہو اور اسے مار پٹوانے کے لۓ اپنے بھائ کو لے آۓ۔ یہ بھی بہت بُری بات ہے۔ تم اس کی باتوں کو نظر انداز بھی کر سکتے ہو اور تم اسے آرام سے بھی سمجھا سکتے ہو یا اس سے دوستی ختم کردو ،' ٹوپی والا لڑکا  اسے سمجھاتے ہوۓ بولا۔

'تم ٹھیک کہہ رہے ہو لیکن اس نے مجھے گالی دی ہے۔ میں اسے ماروں گا۔۔۔ ضرور ماروں گا۔ تم پتہ نہیں کون سی جماعت سے آگۓ ہو۔۔۔ جا‎ٶ یہاں سے،' حمزہ غصے سے بولا۔

اگلے دن مس فوزیہ کا پیریڈ تھا۔ اچانک بچوں نے دیکھا کہ منیب کی ز بان کالی ہو رہی تھی اور اس کے منہ سے کالی جھاگ نکل کر اس کے ناک پر چپکنے لگی۔ اب وہ بالکل ایک بھوت لگ رہا تھا،' بچے ڈر گۓ۔

۔”اوہ تو منیب کے منہ سے کالی جھاگ گالی دینے کی وجہ سے نکل رہی ہے اگر منیب معافی مانگ لے تو ٹوپی والا لڑکا اسے ٹھیک کر سکتا ہے،“ مس فوزیہ نے کہا۔

'ٹوپی والا لڑکا!' بچے حیرت سے بولے۔

'ہاں وہ ایک روبوٹ لڑکا ہے جو گندے بچوں کو سبق۔ سکھاتا ہے۔ میں اسے بلاتی ہوں،'  مس فوزیہ نے اپنے موبائل سے ایک ایپ کھولا۔
یہ روبوٹ لڑکا مس فوزیہ کی بیٹی نے بنا یا تھا جو یونیورسٹی میں روبوٹ انجئینرنگ پڑھ رہی تھی۔

تب ہی ٹوپی والا لڑکا اپنی ٹوپی کا بٹن دبا کر کھڑکی سے اندر آگیا کیونکہ وہ تو اپنے آپ کو موٹا اور بہت پتلا بھی کر سکتا تھا۔

'میں وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی کسی کو گالی نہیں دوں گا اور جھوٹ بھی نہیں بولوں گا،' منیب نے ساری جماعت سے معافی مانگ لی۔

'منیب کا باقی رنگ تو ٹھیک ہو جاۓ گا لیکن ناک چھٹی کے وقت تک کالی رہے گی۔ اگر منیب اپنی بات پر قائم رہا تو شام تک ناک بھی صاف ہو جاۓ  گی،' ٹوپی والا لڑکا بولا۔

کچھ دیر میں منیب کا کالا رنگ ٹھیک ہو گیا اور شام تک ناک بھی صاف ہوگئ لیکن اب جب بھی اس سکول کا کوئ بچہ کسی کو گالی دیتا ہے تو اس کے منہ سے کالی جھا گ نکل کر اس کی زبان اور ناک کو کالی کر دیتی ہے اور وہ کالا بھوت بن جاتا ہے۔ یہاں تک کہ بچہ معافی مانگتا ہے اور دوبارہ گالی نہیں دیتا وہ کالا بھوت ہی بنا رہتا ہے۔ اب چوتھی جماعت کا ماحول پھر سے اچھا ہو گیا ہے۔ سب بچے ایک دوسرے کے ساتھ آرام سے بات کرتے ہیں اور غصے میں بھی ایک دوسرے کو گندی باتیں نہیں کہتے اور گالی نہیں دیتے۔

مس فوزیہ بہت خوش ہیں ۔

ارے ہاں منیب اور حمزہ پھر سے اچھے دوست بن گۓ تھے۔

  

Advertisement