Advertisement

Friday 2 August 2024

zaviyah book review- ashfaq Ahmed Zaviyah book review- ایک جا ئزہ زاویہ اشفاق احمد

 zaviyah book review-ok ashfaq Ahmed Zaviyah 

Fauji foundation education system 

book review-


 ایک جا ئزہ زاویہ اشفاق احمد

 

 


      

                                              فو جی فاؤ ن ڈیشن ایجو کیشن سسٹم

                                          ٹیچر ٹریننگ سیشن )فیز II       2024 

 

 

                                                        تحر ی ری  اسائنمنٹ    

          

                                         موضوع  :   ز اویہ از اشفاق احمد  (   ا یک جا ئزہ)

 

                                                                                تصنیف کر دہ  :  سا ئرہ  اصغر                                                                                      

                                        

     ا سٹیشن  :  ا یف ایف سی لاہو ر زون 



 Click here For pdf 

zaviyah by ashfaq ahmed book review




https://sg.docworkspace.com/d/sIPy6qeerAaiCs7UG

مصنف کے بارے میں:

      

         دیباچہ:

          اشفاق احمد پاکستان کے ایک نامور ادیب تھے جنہوں نے اردو ادب میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ انہوں نے کئی کتابیں تصنیف کیں، جن میں ناول، مختصر کہانیاں، ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے لیے ڈرامے شامل ہیں۔ ان کے کام کو بہت پذیرائی ملی اور ادب اور نشریات کے میدان میں ان کی شاندار خدمات پر انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس اور ستارہ امتیاز کے اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ ان کی 30 کتب منظر عام پرآ  چکی ہے جن میں مشہور کھیل تماشہ، ایک محبت سو   افسانے ،گڈریا، ننگے پاؤں ،ٹا ہلی تھلے ،حسرت تعمیر ،گلدان، ڈھنڈورا، دھینگا مشتی وغیرہ شامل  ہیں-

اشفاق احمد اپنی تحریروں کے علاوہ پی ٹی وی کے پروگراموں بیٹھک اور زاویہ کو ہوسٹ کرتے رہے۔ ان پروگراموں کے دوران وہ اپنے مداحوں خاص طور پر نوجوان سامعین سے بات چیت کرتے تھے اور انہیں ان کے سوالات کے تسلی بخش جوابات فراہم کرتے تھے۔ یہ پروگرام حکمت اور بے لوث زندگی کے اسباق سے بھرے ہوئے تھے جن کا مقصد ناظرین کو زندگی کے چیلنجز کا سامنا کرنے میں مدد کرنا تھا۔ ان کی تعلیم کی گہرائی کو مکمل طور پر سمجھنے کے لیے ان  پروگراموں کے ریکارڈ شدہ ورژن دیکھنے یا ان کی گفتگو سے مرتب کی گئی کتاب” زاویہ “ہم سب کو پڑھنے کی ضرورت ہے۔ 

اشفاق احمد کی حکمت اور دانائی سے بھرپور گفتگو سے اخذ کیے گئے زاویہ)حصہ (1 کے کچھ اسباق بتانے کی کوشش ہے جو کہ ہر اس شخص کے لیے اہم ہیں جو ایک پرسکون زندگی گزارنے کا خواہشمند ہو۔ میں قارئین کی حوصلہ افزائی کروں گی کہ وہ اشفاق احمد کی کی کتابوں کا خود مطالعہ کریں اور اپنی دانش کے مطابق  نتائج اخذ کریں۔ اس کے علاوہ والدین کے لیے اپنے نوجوان بچوں کو” زاویہ “سے متعارف کرانا ایک بہت ہی عمدہ خیال ہو سکتا ہے کیونکہ اس سے انہیں زندگی میں بہتر فیصلے کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اشفاق احمد صاحب کے فرمودات ہر اس شخص کے لیے ایک قیمتی وسیلہ ہیں جو مقصد اور تکمیل سے بھر پور زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ تو آئیے اشفاق صاحب کی بصیرت پر مشتمل ان اسباق کا ذکر کریں جو میں نے اپنی ناقص عقل کے مطابق ان کی گفتگو سے حاصل کیے ہیں۔








فہرست

تعارف کتاب بحوالہ دیباچہ  زاویہ

زاویہ کے  چند اہم موضوعات

مایوسی

صاحبان علم

ایک استاد عدالت کے کٹہرے میں

دیے سے دیا

تعریف و توصیف

اندر کی تبدیلی

محبوب کون

اللہ کا نظام

عزم اور لگن

احکام الہی

شیئرنگ

انسان کو شرمندہ نہ کیا جائے

انا کی لٹھ

حال میں رہیں

دعا 

ہماری خواہشات کی تکمیل

چیزوں کی کشش اور ترک  دنیا

ماحاصل

حوالہ جات

تعارف:

          زاویہ اول، اشفاق احمد صاحب کے ٹیلی ویژن پروگرام زاویہ کے متن پہ مبنی کتاب ہے۔ اشفاق احمد صاحب کا یہ پروگرام پاکستان ٹیلی ویژن سے پیش کیا گیا اور اپنی منفرد پیشکش اور اشفاق احمد صاحب کی میزبانی کی وجہ سے بےحد مقبول ہوا، یہاں تک کہ اس کو کتابی شکل میں بھی پیش کیا گیا ہے۔ زاویہ نامی اس کتابی سلسلے کے تین حصے ہیں، زاویہ اول، زاویہ دوم اور زاویہ سوم۔ آج اس کے پہلے حصے یعنی زاویہ اول کے بارے میں بات ہو رہی ہے۔

زاویہ اول میں کل 47 پروگراموں کا متن شامل ہے۔ ہر پروگرام اپنے موضوع کے اعتبار سے مختلف ہے۔ان پروگراموں میں اشفاق احمد صاحب نے اپنی زندگی کے قصوں سے حکمت اور سمجھداری کی وہ باتیں بتائی ہیں جو ان کی زندگی کے سبق اور حاصل ہیں۔ اشفاق صاحب کی باتیں لوگوں کے لئے بڑی متاثر کن ہیں اور وہ ان کی زندگی کے اسباق سے اپنے لئے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ اس کتاب میں اشفاق احمد صاحب کے بابوں کا بڑا ذکر ہے، ایک مثبت اپروچ ہے جو زندگی کو ایک نئے نظر یےسے دیکھنے کی راہ سجھاتی ہے۔ کتاب میں موجود 47 موضوعات پہ علیحدہ علیحدہ بات کرنا ممکن نہیں، تاہم یہ کتاب ایسی ہے کہ اس میں ہر ایک کے لئے کچھ نہ کچھ رہنمائی موجود ہے اس لئے قاری کو ایک دفعہ یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہئے۔



                  اشفاق احمدکہتے ہیں فرض کریں ماڈرن دنیا میں کسی قسم کا ایک ڈیرہ ہو ، جس میں کوئی (psychiatrist)بیٹھا ہو،لیکن وہ فیس نہ لے،یا سائیکالوجسٹ ہو جس کے پاس وہ بنچ نہ ہو جس پر لٹا کر analysis کرتے ہیں، بلکہ بچھانے کے لیے صف ہو۔ اس پر ایسا سامان ہو کہ آمنے سامنے بیٹھ کر بات کر سکیں تو ان ڈیروں کو، ان تکیوں کو شمالی افریقہ میں،الجزائر میں،تیونس میں "زاویے" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے- ان کو زاویہ کہتے ہیں۔ کچھ "رباط" بھی کہتے ہیں وہاں پر، لیکن زاویہ زیادہ مستعمل ہے۔ اشفاق احمد اکثر بابوں کا ذکر کرتے ہیں اب یہ بابے کون تھے؟   دراصل یہ بابے ان کے استاد تھے جنہوں نے ان کی رہنمائی کی اور جن کی تعلیمات کو انہوں نے آ گےبڑھایا دراصل بابے صوفی لوگ تھے اور یہ رول کوئی بچہ بھی ادا کر سکتا ہے- بابا   نوجوان، سو ٹڈ بو ٹڈ بھی ہو سکتا ہے کیونکہ اشفاق احمد نے بابے کی تعریف یہ کی ہے کہ : جو شخص دوسروں کی زندگی میں  آسانی پیدا کرے وہ بابا ہے۔

اہم موضوعات

مایوسی:

                 اشفاق احمد کا کہنا ہے کہ زندگی میں ہمیں جن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ ہماری زندگی کا صرف ایک حصہ ہوتے ہیں. لیکن ہم اکثر ان کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں جیسے وہ پوری زندگی کے ساتھ جڑے ہوں۔ ہر مسئلے سے انفرادی طور پر نمٹنے کی بجائے ہم اکثر ایک مسئلے کو لے کر اپنی زندگی کے ہر پہلو کو گڑبڑ کر دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ اشفاق صاحب ہمیں بتاتے ہیں کہ ہمارے پاس مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ ہماری خواہشات اکثر مایوسی کا باعث بنتی ہیں کیونکہ وہ کبھی ختم نہیں ہوتیں اور ایک کے بعد ایک کر کے آتی رہتی ہیں۔ اگر ہم صرف اپنی ضروری خواہشات پر توجہ مرکوز کر لیں تو ہمیں مایوسی کا سامنا نہیں ہوگا اور ہم پرسکون رہیں گے.

صاحبان علم:

                      اس حصے میں اشفاق احمد صاحب نے صاحبان علم اور صاحبان قلم کا تذکرہ کیا. اس حوالے سے انھوں نے پڑھے لکھے افراد اور ہنر مند افراد کے درمیان فرق پر بحث کی ہے۔ ان کے مطابق ہنر مند لوگ اتنے ہی صاحب علم اور باشعور ہوتے ہیں جتنے کہ پڑھنے لکھنے والے۔ تاہم ہمارا معاشرہ اکثر ان لوگوں کے علم کو نظر انداز کرتا ہے جو ہنر مند ہیں. بجائے اس کے کہ ہم پڑھنے اور لکھنے کی مہارت رکھنے والوں کو زیادہ مقام اور مراعات دیں وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جو لوگ ہنر مند ہیں اور حقیقت میں چیزیں بناتے اور دنیا کو سنوارتے ہیں ان کا یکساں احترام کیا جانا چاہیے. کیونکہ وہ عملی لوگ ہیں جو محض باتیں کرنے کے بجائے عمل کرتے ہیں۔ اشفاق احمد صاحب کا پیغام واضح ہے: ہماری زندگی صرف معلومات سے نہیں بلکہ عمل سے بھری ہونی چاہیے۔

ایک استاد عدالت کے کٹہرے میں:

                                                 اس حصے میں اشفاق احمد نے اٹلی میں پیش آنے والا ایک واقعہ بیان کیا ہے جب وہ وہاں بطور استاد خدمات انجام دے رہے تھے۔ ٹریفک کی خلاف ورزی پر ان پرجرمانہ عائد ہوا. جب انھوں نے اپنے جاننے والوں کو اس بارے میں بتایا تو انھوں نے اس بات کو اچھا نہیں سمجھا جس پر وہ کافی حیران ہوئے. بحرحال وہ جرمانہ ادا کرنے سے قاصر رہے تو انھیں عدالت میں پیش ہونا پڑا۔ ان کو دوبارہ بہت حیرت ہوئی جب عدالت نے ان کے لیے بے حد احترام کا مظاہرہ کیا. جج بھی ان کے احترام میں کھڑا ہوا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ ان پر قانون کے مطابق جرمانہ عائد کیا گیا لیکن ان کے ساتھ جس احترام کا مظاہرہ کیا وہ بے مثال تھا۔ اس واقعے کے ذریعے اشفاق احمد اس حقیقت پر زور دیتے ہیں کہ اساتذہ کو کسی بھی معاشرے میں سب سے زیادہ احترام کے ساتھ رکھا جانا چاہیے۔


دیے سے دیا:

                         اس حصے میں اشفاق احمد ہمیں عمل کرنے اور اپنے اردگرد کے لوگوں کے لیے زندگی آسان بنانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جب دوسروں کی مدد کرنے کی بات آتی ہے تو ہم اکثر عمل سے زیادہ باتیں کرتے ہیں۔ عملی مدد اور وسائل فراہم کرنے کے بجائے، ہم مشورے اور بیان بازی پر زیادہ انحصار کرتے ہیں، جو کہ ایک مؤثر طریقہ نہیں ہے۔ اپنی بات کو واضح کرنے کے لیے وہ روزمرہ کی زندگی سے عام  مثالیں پیش کرتے ہیں، جیسے گرمی میں کسی کو پانی پیش کرنا، سردی میں کمبل فراہم کرنا، بغیر معاوضے کے پڑھانا، دفتری معاملات میں غیر ضروری اعتراضات کرنے سے گریز کرنا وغیرہ۔  اشفاق احمد صاحب دینے (giving) کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جو کچھ ہم دوسروں کو دیتے ہیں وہ ہمارے اپنے وسائل سے نہیں ہوتا بلکہ اس میں سے ہوتا ہے جو اللہ نے ہمیں عطا کیا ہے۔ وہ ہمیں ترغیب دیتے ہیں کہ جب ہم سے مدد مانگی جاتی ہے تو ہمیں یہ سوچ کر دینا چاہیے کہ ہم نے کونسا اپنے پاس سے دینا ہے، ہم نے تو اسی میں سے دینا ہے جو ہمیں دیا گیا ہے۔ 


تعریف و توصیف:

                                اس حصے میں اشفاق احمد دوسروں سے اظہار تشکر، ان کے اچھے کام کی تعریف کرنے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ اگرچہ ہم اچھے لوگ ہیں لیکن ہم اکثر اپنے اردگرد موجود لوگوں کی تعریف کرنے میں کنجوسی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

ہماری بہوئیں ہماری ساسوں سے کیوں نالاں رہتی ہیں - ساسیں اپنی بہوؤں کو گہنے دے دیتی ہیں - گھر کی چابیاں دے دیتی ہیں لیکن شاباش نہیں دیتیں - انھیں یہ فن آتا نہیں ہے - کبھی یہ نہیں کہتیں کہ " تم نے میٹھے چاول پکا کر کمال کر دیا ہے - یہ گڑ والے چاول اتنے کمال کے ہیں کہ ہم سے کبھی یہ پک نہیں پائے ہیں - لڑکی تم نے کیا ترکیب لڑائی ہے !

           اب ساس کے اتنا کہنے سے وہ زندہ ہو جائے گی اور ساری عمر آپ کی خدمت کرتی رہے گی ۔ چاول کھلاتی رہے گی   اور آپ کے لئے جان دے دیگی ۔

] از اشفاق احمد زاویہ ٣: ٹین کا خالی ڈبہ اور ہمارے معاملات [

 شکریہ اور تعریف کا اظہار دوسروں کے لیے آپ کی حمایت کو ظاہر کرتا ہے اور انہیں اپنے اچھے کام کو جاری رکھنے کی ترغیب دینے میں مدد کر سکتا ہے۔ بدقسمتی سے، جیسا کہ وہ فرماتے ہیں، کہ ہم دوسرے لوگوں کی زندگی میں ان کی حمایت اور حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے ان کے انتقال کے بعد ہی ان کی تعریف اور پہچان پیش کرتے ہیں۔ یہ ایک موثر طریقہ نہیں ہے۔ مزید برآں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب ہم دوسروں پر تنقید کرتے ہیں تو یہ اکثر ان جیسا بننے کی ہماری اپنی ادھوری خواہشات کی عکاسی کرتا ہے۔ تنقید اکثر ہمارے حسد کا مظہر ہوتی ہے جو دوسروں نے حاصل کیا ہے لیکن ہم نہیں حاصل کر سکے۔

اندر کی تبدیلی:

                           اشفاق احمد باطن کو پاک کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ لوگ اکثر اپنے ماحول اور بیرونی حالات کے بارے میں شکایت کرتے ہیں اور یہ سمجھتے  ہیں کہ بیرونی عوامل میں تبدیلی خود ان میں تبدیلی کا باعث بنے گی۔ تاہم یہ گمراہ کن سوچ ہے. جیسے پرانی گاڑی کا رنگ تبدیل کرنے سے یہ بہتر کام نہیں کرے گی اسی طرح صرف باطن کی صفائی اور تطہیر ہی ہمارے حالات کو صحیح معنوں میں بدل سکتی ہے۔

محبوب کون؟

                          اشفاق احمد کا استدلال ہے کہ لوگ خوشی کے مواقع پر صرف ان لوگوں کے ساتھ ملتے ہیں جنہیں وہ جانتے ہیں، جیسے کہ خاندان اور دوست، جبکہ ان لوگوں کو نظر انداز کرتے ہیں جنہیں وہ نہیں جانتے، بشمول ان کی خدمت پر مامور سرکاری اہلکاروں کے۔ تعلق اور پہچان کا یہ فقدان افسروں کو عزت حاصل کرنے کے لیے رشوت لینے کا سبب بنتا ہے۔ وہ تجویز کرتے ہیں کہ عہدیداروں کی مالی حیثیت کا خیال کیے بغیر ان کے لیے عزت اور محبت کا مظاہرہ کرنے سے رشوت خوری کے امکانات کو کم کیا جاسکتا ہے اور غلط کاموں میں ملوث نہ ہونے کے لیے ان کے شعور کو بڑھایا جاسکتا ہے، کیونکہ اس سے ان کی ساکھ اور عزت کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

اللہ کا نظام:

                       اشفاق احمد اللہ کے نظام کے موضوع پر روشنی ڈالتے ہیں جو سطحی طور پر غیر منصفانہ دکھائی دیتا  ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ امیر ہیں جبکہ دوسرے غریب ہیں، اور کچھ صحت مند ہیں جبکہ کچھ بیمار ہیں۔ تاہم اشفاق احمد بتاتے ہیں کے خدا نے زندگی کی بنیادی چیزیں مفت فراہم کی ہیں لیکن جب دولت کی بات آتی ہے تو وہ ہمیں جو کچھ دیتا ہے وہ صرف ہمارا نہیں ہوتا۔ اس میں دوسروں کے لیے حصہ شامل ہوتا ہے جسے ہم اکثر نظرانداز کر دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جو غیر منصفانہ نظام ہم دیکھتے ہیں وہ ہم نے خود بنایا ہے اور یہ کہ ہم ہی اپنے ساتھی انسانوں کے ساتھ ناانصافی کا باعث ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ یہ ناانصافی ہمیں ماضی میں رہنے اور مستقبل سے ڈرنے کی طرف لے جاتی ہے۔ جبکہ جو لوگ شکر گزاری کے ساتھ واقعی حال میں رہتے ہیں اور زندگی سے لطف اندوز ہوتے ہیں وہ وہ ہیں جو ماضی میں نہیں رہتے اور نہ ہی مستقبل سے ڈرتے ہیں۔

                            وہ سکندر اعظم کا واقعہ بتاتےہیں جو ایک متقی آدمی سے ملنے گیا جو ساحل پر قلابازیاں  لگا رہا تھا اور کرتب دکھا رہا تھا۔ جب اس نے سکندر کو بھی ایسا کرنے کو کہا تو سکندر اعظم نے جواب دیا کہ جب وہ باقی کی آدھی دنیا کو بھی فتح کر لے گا تو آ کے آپ کے ساتھ قلابازیاں لگائے گا۔ متقی آدمی نے جواب دیا کہ تم بڑے بدقسمت ہو تم دنیا فتح کر کے چھلانگیں لگاؤ گے جبکہ میں آدھی بھی فتح کیے بغیر بھی اچھل رہا ہوں۔


عزم اور لگن:

                 پاکستان کی ایک ان پڑھ دیہاتی لڑکی کی کہانی بیان کرتے ہوئے جو یورپ میں ایک اعلیٰ کاروباری خاتون بن گئی، اشفاق احمد اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اگر ہم اپنی توانائیاں ان شعبوں پر مرکوز کریں جہاں ہم ترقی کرنا چاہتے ہیں، چاہے وہ روحانی ہو یا مادی تو ہم اپنا مقصد حاصل کر سکتے ہیں. اپنے آپ کے ساتھ واضح عزم اور لگن کے ساتھ کچھ بھی ممکن ہے۔

  

احکام الہی:

                      اشفاق احمد بتاتے ہیں کہ بحیثیت انسان ہمارا تجسس ایک مثبت خصلت ہے لیکن یہ خدا کی مرضی میں ہماری مداخلت کا باعث بن جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہمیں عدم توازن کا احساس ہوتا ہے. ہم دیکھتے ہیں کہ برے لوگ بظاہر زندگی سے لطف اندوز ہوتے ہیں جبکہ اچھے لوگ جدوجہد کرتے ہیں. پھرہم سوال کرنے لگتے ہیں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ لیکن ایسا سوال اٹھانے سے پہلے ہم اللہ کے احکامات پر مکمل عمل کرنے کا اپنا فرض بھول جاتے ہیں. لہٰذا ہم کچھ نہیں سمجھ پاتے اور تنقید کرنے لگتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اللہ کی مرضی کو سمجھنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے بغیر کسی استثنا کے احکام الہی میں پورے کے پورے داخل ہونا چاہیے۔

شیئرنگ:

                      اشفاق احمد ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ اگرچہ دینا یقیناً ایک نیک عمل ہے لیکن شیئر کرنا بھی اتنا ہی اہم ہے۔ جن لوگوں کی ہم مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں انہیں بعض اوقات شاید مادی چیزوں کی ضرورت نہ ہو، بلکہ ہماری موجودگی، ان کے خیالات اور احساسات کو بانٹنے کے لیے ہماری رضامندی، اور سننے کی ہماری صلاحیت کی ضرورت ہو۔ خدا نے ہمیں وہ سب کچھ فراہم کیا ہے جس کی ہمیں ضرورت ہے اور اس نے ہمیں یہ سب اشتراک کے اصولوں کی بنیاد پر عطا کیا ہے.  نہ صرف ہمارے ساتھی انسانوں کے ساتھ بلکہ جانوروں کے ساتھ بھی، جیسے کہ ہوا اور پانی وغیرہ ۔ بدقسمتی سے ہم انسانوں میں اکثر ایک ساتھ رہنے اور اشتراک کرنے کے بجائے فتح کرنے اور کنٹرول کرنے کی کوششوں کا رجحان زیادہ ہوتا ہے۔


انسان کو شرمندہ نہ کیا جائے:

                                          اشفاق احمد پڑھے لکھے اور قابل کمیونٹی کے درمیان ایک مروجہ مسئلہ کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم جیسے تعلیم یافتہ افراد ترقی میں کمی کی وجہ صرف اور صرف ناخواندگی اور جہالت کو قرار دیتے ہیں لیکن یہ بات ان لوگوں کے لیے توہین آمیز ہو سکتی ہے جنہیں تعلیم تک رسائی اور کامیابی کے حصول میں چیلنجز کا سامنا رہا ہو۔ اس قسم کا رویہ خاص طور پر اس وقت عام ہوتا ہے جب لوگ اپنی کامیابی کی کہانیوں پر فخر کرتے ہوئے یہ بتاتے ہیں کہ ان کی کامیابیاں صرف اور صرف ان کی محنت اور عزم کا نتیجہ ہیں۔ اس سے دوسروں کو شرمندگی اور مایوسی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، خاص طور پر وہ لوگ جنہوں نے شاید اس سے بھی زیادہ جدوجہد کی ہو لیکن کامیابی کی اسی سطح کو حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے الفاظ کے اثرات سے آگاہ رہیں اور مباحثوں میں بھی ایسے دلائل سے بچیں جو دوسروں کے لیے شکست یا حوصلہ شکنی کا باعث بنیں۔


انا کی لٹھ:

                   اشفاق احمد کے مطابق نیک اور پرہیزگار لوگوں کی تلاش کرنے میں مشکل ہونے کی وجہ ہماری انا ہے۔ ہم ان لوگوں صرف ان میں نیک لوگوں کو تلاش کرتے ہیں جو اعلی سماجی حیثیت کے حامل ہوں. اگر ہم انہیں اپنے سے کم درجہ کے لوگوں میں پاتے ہیں تو ہماری انا مجروح ہوتی ہے۔ یہ ہمیں اس حقیقت کو قبول کرنے سے روکتا ہے کہ اچھے لوگ ہمارے درمیان پائے جا سکتے ہیں، بشمول ہمارے ساتھی اور جونیئرز ۔  نیک لوگوں کی ایک نشانی یہ ہے کہ وہ اپنے موجودہ حالات پر ہمیشہ مطمئن رہتے ہیں، شکایت نہیں کرتے اور اپنے ایمان پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ ایسے افراد ہی “با بے” ہوتے ہیں اور وہ ہمارے ارد گرد ہی پاۓ جاتے ہیں لیکن ہم اپنی انا کے پردے کی وجہ سے ان کو دیکھ نہیں پاتے.


حال میں رہیں:

                             اشفاق احمد ماضی پر پشیمان ہونے یا مستقبل کی فکر کرنے کی بجائے ہمیں حال میں جینے کی تلقین کرتے ہیں. اس تناظر میں وہ ایک مزدور کی متاثر کن کہانی پیش کرتے ہیں۔ مزدور نے اپنے گھر میں کھلتے پھول کی خوبصورتی کا مزہ لینے اور اپنے بچے کو پہلی دفعہ قدم بڑھا کے چلتے ہوئے دیکھنے کے لیے ایک دن کی مزدوری چھوڑنے کا انتخاب کیا۔ وہ ان لمحات کو دیکھنے اور انجوائے کرنے کے لیے گھر میں رہنا چاہتا تھا۔ اشفاق احمد ہمیں اپنے موجودہ لمحات کو ان پھلوں کے غم میں ضائع کرنے سے منع کرتے ہیں جو ہم حاصل نہیں کر سکے یا ان پھلوں کی فراوانی کے خواب دیکھنے میں جو ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ماضی کی فکر اور مستقبل کے اندیشوں سے ہم کبھی بھی صحیح معنوں میں سکون سے نہیں رہ سکتے.

میری راۓ:

       میری راۓ میں یہ بہترین کتاب ہے۔        اشفاق احمد صاحب دعا کے بارے میں تفصیل سے بات کرتے ہیں. وہ بتاتے ہیں کہ دعا کے معاملے میں ہم بہت غلطیاں کرتے ہیں. ہم اپنی انا کو توڑے بغیر دعا مانگتے ہیں یا پھر ہم بہت چھوٹا پھول مانگتے ہیں جبکہ قدرت نے ہمارے لیے ٹوکرا بھر کے رکھا ہوتا ہے. پھر جب ہم جلدی میں مکمل عاجزی سے خالی دعایں بہت زیادہ مانگ لیتے ہیں تو شکوہ شروع کر دیتے ہیں. انسان بے صبرا ہے اور اکثر کہتا ہے صرف میں ہی کیوں. طرح طرح سے شکوے شکایتیں کرتا ہے. تو وہ بتاتے ہیں کہ جب بھی دعا مانگو تو ایسے مانگو جیسے بچہ بلک رہا ہوتا ہے. اپنی انا کے خول سے نکل کے مانگو بلکہ ایسا کرو کہ لکھ کہ مانگو. جیسے ہم دنیا میں بہت سے کاموں کے لیے لکھ کے درخواستیں دیتے ہیں اور پھر ان کے پیچھے بھاگتے ہیں تو اپنے اللہ سے بھی لکھ کے مانگو. اپنی قابلیت، عقل مندی یا تعلیم و ہنر کے خول سے باہر نکل کے بلکل ایک لاچار بچے کی طرح.

مجھے کیا پسند آیا:

ہماری خواہشات کی تکمیل:

                                           اشفاق احمد کے مطابق ہم خود ہی اکثراپنی خواہشات کی راہ میں رکاوٹ ڈال کر انھیں سبوتاژ کرتے ہیں۔ ہماری بے صبری اور فوری تسکین کی خواہش ہمارے مقاصد کی تکمیل میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ تاہم اگر ہم حقیقی طور پر کسی چیز کی خواہش کرتے ہیں اور کوشش کرنے کو تیار ہوتے ہیں تو قدرت بھی اس کی تکمیل میں ہماری مدد کرنے کو تیار ہوتی ہے۔ اپنی امنگوں کو حاصل کرنے کے لئے ایک عملی پراسیس کی ضرورت ہے جو استقامت ، لچک اور صبر کا مطالبہ کرتا ہے۔ بدقسمتی سے ہم بار بار اس عمل میں خلل ڈالتے ہیں جو ہمیں اپنے مطلوبہ نتائج کے حصول سے روکتا ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے خوابوں کو حاصل کرنے کے لئے عملی پراسیس پر بھروسہ کرنا ، صبر کرنا ، اور مستقل طور پر اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کام کرنا سیکھنا چاہیے۔

چیزوں کی کشش اور ترک  دنیا:

                                              اشفاق احمد بتاتے ہیں کہ ہماری زندگی میں مادی چیزوں کے ساتھ حد سے زیادہ وابستگی ہو جاتی ہے. ہم اکثر اپنی خودی کو اپنی املاک اور چیزوں کے ساتھ نسبت سے دیکھتے ہیں۔ اس تناظر میں ہماری چیزیں ہمارے لیے محض اشیاء سے بڑھ کراہم ہو جاتی ہیں. ہم جذباتی طور پر ان سے جڑ جاتے ہیں اور انہیں اپنی شناخت کا حصہ بنا لیتے ہیں۔ تاہم اشفاق احمد ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ زندگی میں ہر چیز بشمول مادی اثاثوں کے ایک محدود وجود رکھتی ہے. یہ جاننا ضروری ہے کہ ہماری قدر کا تعین ہماری ملکیت میں ہونے والی اشیا اور اثاثوں سے نہیں ہوتا۔ اس کے بجائے ہماری اہمیت دوسرے انسانوں کے ساتھ ہمارے تعلقات اور اپنے آس پاس کی دنیا پر مثبت اثر ڈالنے کی ہماری صلاحیت سے پیدا ہوتی ہے۔ مادی املاک سے اپنی لگاؤ کو کم کر کے ہمیں دوسرے لوگوں کے ساتھ گہرے روابط قائم کرنے اور زیادہ بامعنی زندگی گزارنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

ماحاصل:

             زاویہ زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتی ہے۔انسانوں کو پرکھنے کی، انکو انکی خوبیوں اور خامیوں سمیت قبول کرنے،اور انکو انسان ہونے کا مارجن دینے کا سبق دیتی ہے۔انسان اپنی پوری زندگی اسی زعم میں گزار دیتا ہے کہ وہ خاص ہے۔ اپنے فن، ہنر، اور تعلیم یافتہ ہونے کا گمان اسے اس حقیقت کو اپنانے نہیں دیتا کہ چاہے وہ اپنے کام کا کتنا ہی ماہر کیوں نہ ہو، دنیا میں ہر کسی سے اوپر کوئی موجود ہے۔ چاہے وہ علم ہو، ذہانت ہو، ہنر ہو، فن ہو یا خوبصورتی۔اگر ہم اس حقیقت کو قبول کرلیں تو غرور جیسی کوئی شے ہمارے قریب پھٹک بھی نہیں پائے گی۔اس کو پڑھتے وقت کافی مقامات پر اندازہ ہوا کہ زندگی میں جن لوگوں کو آپ حقیر سمجھتے ہیں، امیری کا مطلب شروع ہی ان سے ہوتا ہے۔

ایک اور مقام جس نے مجھے بہت متاثر کیا، وہ تھا جہاں اشفاق احمد صاحب نے ہمدردی کا اصل معنی سمجھایا تھا، اسکو پڑھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ ہم انگریزی میں اتنے گم ہو چکے ہیں کہ ہم نے اردو کے گہرے اور خوبصورت الفاظ کو اپنی ناقص سمجھ سے انتہائ آلودہ کردیا ہے۔ آج ہمدردی کرنے کو بھیک دینے سے مشابہت دی جاتی ہے جبکہ در حقیقت ہمدرد تو ہوتا ہی وہی ہے جو آپ کے درد کو محسوس کرسکے اور جو آپ کے دردوغم میں برابر کا شریک ہو۔

یہ کتاب اتنی خوبصورت اور مکمل ہے کہ ایک تحریر اسکی خاصیت بتانے کے لیے ناکافی ہوگی۔جیسا کہ اشفاق احمد زاویہ کے ہر باب کا اختتام ان خوبصورت الفاظ کے ساتھ کرتے ہیں انہی الفاظ پر میں اس تحریر کا اختتام کرتی ہوں۔

" اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں پیدا کرنے کا شرف عطا فرمائے۔"آمین''۔


Advertisement