لکیر کے فقیر-
جشن آزادی اسپیشل کہانی
'آج 14 اگست ہے اور آزادی کے دن کو منانے کے لۓچھٹی ہے- تم دیکھنا آج پھرسب بچے مجھے ہی
خریدیں گے- میں یہاں کی سب سے مہنگی
اور مزیدار آئسکریم ہوں، ،' غیر ملکی مہنگی کمپنی کی مشہورکون آئسکریم نے اتراتے
ہوۓ کہا-
'اب ایسی بھی بات نہیں، بہت سے بچے مجھے بھی
پسند کرتے ہیں،' قلفی اعتماد سے بولی-
'ہاں بالکل، وہ بچے جن کے پاس پیسے کم ہوتے ہیں،' مہنگی کمپنی کی چاکلیٹ
آئسکریم کی بات پر سب آئسکریم ہنسنے لگیں-
چھوٹی قلفی ڈر کر بڑی قلفی کے پاس چھپ گئ-
'یہ آزادی کا دن کیا ہوتا ہے؟ کیا یہ لوگ بھی
ہماری طرح فریج میں قید تھے؟' چھوٹی قلفی نے پوچھا-
' نہیں بھئ، کسی فریج میں نہیں بلکہ یہ لوگ تو
اپنی ہی زمین پر غلام بن گۓ تھے- یہاں مغل حکمران شان و شوکت سے حکمرانی کر رہے
تھے- بہت خوش حالی تھی- انگریز یہاں تجارت کرنے آۓ اور پورے ملک پر قبصہ کر لیا
یعنی یہاں کے حکمران بن گۓ،'قلفی کی ڈنڈی نے جواب دیا- سب آئسکریم اس کی طرف متوجہ ہو گئ تھیں-
'یہاں کے لوگوں نے انھیں روکا کیوں نہیں؟' چھوٹی قلفی نے حیرت سے
پوچھا-
ارے کیا بتاؤں، میں اس وقت یہاں تناور درخت ہوا کرتی تھی- بڑا ہی مشکل وقت تھا- یہاں کے لوگ انھیں کیسے روکتے، انگریز بہت پڑھے لکھے تھے- ان کے
پاس جدید اسلحہ اور سہولتیں تھیں، جبکہ یہاں کے مقامی بادشاہ کاہل ہو گۓتھے- لوگ
محنت سے گھبراتے تھے- تعلیم تو براۓ نام تھی- نئ چیزیں سیکھنے کی لگن نہ تھی بس
لکیر کے فقیر کی طرح زندگی گزار رہے تھے- انگریزوں نے موقع سے فائدہ اٹھایا- یہاں
کی ہر چیز پر قبضہ کر لیا اور دو سو سال تک یہاں ٹکے رہے-اب ہر نوکری، ہر سہولت
ان کی مرضی سے ملتی تھی- وہ اپنی مرضی کے قانون بناتے تھے- وہ تو یہاں کی معدنیات،
ہیرے جواہرات، حتی کہ زرعی پیداوار بھی اپنے ملک لے گۓ،'
'اور اتنا کچھ دے
کرجو گۓ، وہ بھی تو بتاؤ! غیر ملکی مہنگی کمپنی آئسکریم نے تنک کر کہا-
'پھر انگریز واپس کیسے گۓ؟ اب تو یہاں کوئ
انگریز نظر نہیں آرہا،' چھوٹی قلفی نے غیر ملکی آئسکریم کو نظر انداز کرتے ہوۓ فریج کی
جالی سے باہر دیکھا-
'یہ ایک لمبی جدوجہد تھی- پہلے یہاں کے لوگوں نے جنگ کی لیکن فائدہ نہ ہوا- پھرمسلمانوں اور مقامی
لوگوں نے پڑھنا شروع کیا- آخر قائد اعظم اور باقی رہنماؤں نے انگریزوں کو جانے کے
لۓ مجبور کر دیا- یہاں مسلمان اور ہندو
رہتے تھے-
مسلمان ہمیشہ ایک
طاقتور قوم کے طور پر برصغیر میں رہتے تھے۔ قائداعظم جانتے تھے کہ ہندو زیادہ تعداد
میں ہیں اور وہ مسلمانوں کو آزادانہ زندگی گزارنے کے لیے پریشان کریں گے۔ یہ تو ایک غلامی سے نکل کر دوسری میں جانے والی بات ہو گی- اس لۓ جب
انگریز جانے لگے تو قائد اعظم نے مسلمانوں کے لیے علیحدہ ملک کا مطالبہ کیا۔ اس
طرح 14 اگست 1947 کو پاکستان ایک آزاد ریاست
کے طور پر نمودار ہوا اور پاکستانی 14 اگست کو اپنا یوم آزادی مناتے ہیں۔
'کیسی آزادی ! آپ
لوگوں کو تو انگریزوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ آپ ا ن کی بنائ ہوئ ٹرینوں میں سفر
کرتے ہیں اور ان کے بنائے ہوئے ریلوے ٹریک، پل اور سڑکیں استعمال کرتے ہیں۔ آپ کے لوگ
ہماری دوکانوں سے کھاتے ، پہنتے ہیں- ہماری زبان میں بات کرتے ہیں۔ ہم تو اب بھی آپ
کو لُوٹ رہے ہیں اور آپ اب بھی رضامندی سے یہ کر رہے ہیں- آپ تو اب بھی غلام ہیں،'
غیر ملکی آئسکریم ہنسنے لگی-
"آزادی تو آزادی ہی ہوتی ہے، تم لوگ جو بھی
کہہ لو۔۔۔،'
ابھی قلفی جواب دے ہی رہی تھی کہ آئسکریم والی فریج کے پاس ایک نوجوان لڑکا اور لڑکی آکر رُکے-لڑکے نے فریج کھولی- لڑکے نے سبز رنگ کا لباس پہنا ہوا تھا- دونوں نے سبزبیج لگاۓ ہوۓ تھے- چھوٹی قلفی
جلدی سے آگے
آگئ-
'ارے یہ تو وہی نیا ذائقہ ہے جس کا ٹی وی پر
اشتہار چل رہا ہے،' لڑکی نے نیلے کور والی غیر ملکی مہنگی کون آئسکریم اٹھا لی-
'اور میں یہ لوں گا ،' لڑکے نے قلفی کو ایک طرف
کیا اور غیر ملکی چاکلیٹ آئسکریم لے لی اور فریج بند کر دیا-
'دیکھا تم نے، یاد نہیں عید کے دن بھی سب لو گوں
نے ہماری کمپنی کی آئسکریم ہی لی تھی-'
دکاندار نے آئسکر یم کو صحیح کر کے رکھا- غیر ملکی کمپنی کی آئسکریم اُوپر
اور مقامی نیچے رکھ دی- قلفی کو بھی ایک طرف کر دیا- کیونکہ کچھ ہی دیر میں وہاں
بچوں کا رش لگنے والا تھا-
'چلیں آپی آئسکریم لے کر
آئیں،' آمنہ سبز رنگ کی قمیض شلوار پہن کر اور ہاتھ میں لہراتی ہوئ جھنڈی پکڑ کر
تیار ہو کر باہر آئ تھی-
'ایک منٹ رکو اور ہماری مدد کرو،-' وانیہ اپنے
بابا کے ساتھ گھر کے باہر جھنڈ یاں لگا رہی تھی- آخر میں اس کے بابا ایک بڑا سا
جھنڈا لے کر آۓ اور چھت پر لگا دیا-
'آپی چلیں بھی، ورنہ وہ نئ آئسکریم ختم ہو جاۓ
گی، جس کا ٹی وی پر اشتہار چل رہا ہے،'
'ہاں واقعی، میں نے تو اسی آئسکریم کے لۓ پیسے
جمع کۓ ہیں، ویسے وہ کتنی مہنگی ہے،'
'اور ہوتی بھی کتنی کم ہے،' آمنہ سوچتے ہوۓ
بولی-
designed by freepik |
وہ دونوں جانے ہی والی تھیں کہ گھر کے سامنے
گاڑی آکر رکی- وہ اپنے کزنوں کو دیکھ کر خوش ہوگئیں- فاطمہ، عنایہ اور منال نے
سفید لباس کے ساتھ سبز دوپٹہ لیا تھا- مصطفی اور مرتضی نے چہرے پر رنگوں سے جھنڈا
بنایا تھا اور جشن آزادی والی ٹوپی پہنی ہوئ تھی- ان کے ہاتھ میں بین بھی تھی جس
سے وہ پوں پوں کر کے شور مچا رہے تھے- آمنہ نے بھی ایک بین لے لی اور ان کے ساتھ
شامل ہو گئ- سب بچے بہت خوش تھے-
'یہ سب چیزیں ہم نے کل رات کو لی ہیں- ہم رات کو
بتیاں دیکھنے گۓ تھے- ساری عمارتیں دلہن کی طرح سجی ہوئ تھیں،' فاطمہ نے جوش سے
بتایا-
'اس میں کیا بڑی بات ہے، ہم بھی گۓ تھے- ہم نے
تو آتش بازی بھی دیکھی،' وانیہ نے جواب دیا-
'اور ہم نے باہر کی مشہور کمپنی کا برگر بھی
کھایا- اتنا رش تھا وہاں- دور دور تک گاڑیوں کی قطاریں لگی ہوئ تھیں- ہماری باری
کوئ ایک گھنٹے بعد آئ- تم تو جانتی ہو میں
باہر کی مشہور کمپنی کے علاوہ برگر نہیں
لیتی،' منال نے اتراتے ہوۓ بتایا-
' ہم نے
بھی۔ برگر۔۔۔'
'رکو آمنہ، آؤآئسکریم لے کر آئیں،'
وانیہ
نے امنہ کی بات کاٹ دی- وہ نہیں چاہتی تھی کہ فاطمہ اور منال کو پتہ چلے- رات کو
بتیاں اور شہر کی سجاوٹ دیکھنے کے بعد انھوں نے بھی اپنے بابا سے برگر کھانے کی
فرمائش کی تھی- وہ مشہور کمپنی کے ریسٹورنٹ کے پاس پہنچے لیکن وہاں رُکے نہیں- وہاں
بہت رش تھا- کچھ دیر بعد بابا نے گاڑی ایک مقامی برگر والے ریسٹورنٹ کے پاس روک
دی- وہاں بہت کم لوگ تھے-
'کیا کرتے ہیں آپ بھی، کیا اب ہم یہاں سے کھایئں
گے؟ چلو پہلے تو ہمارے پاس پیسے نہیں ہوتے تھے لیکن اب تو ایسا کوئ مسئلہ نہیں،'
وانیہ کی ماما بولیں-
'پیسوں کی بات نہیں- ہم لوگ لکیر کے فقیر بن گۓ
ہیں- بغیر سوچے ایک دوسرے کے پیچھے لگ جاتے ہیں- دیکھا نہیں وہ کتنا مہنگا برگر دیتے
ہیں اور پھر سارا منافع اپنے مُلک بھیج دیتے ہیں- اس لۓ تو وہ ملک اتنے امیر ہو گۓ
ہیں اور جب چاہیں ہم پر مرضی چلاتے ہیں- ہمیں کچھ نہ کرنے کے طعنے دیتے ہیں- ہمیں اپنی مقامی کمپنیوں کوفرو غ دینا چاہیے
تاکہ وہ ملک کا پیسہ ملک میں رہے اور ہمارا ملک ترقی کرے۔۔ اور ہاں یہ برگر اتنا
بھی سستا نہیں۔۔۔،' بابا نے سب کو مسکراتے
ہوۓ آرڈر دیا-
'آپ بھی نہ، ایک آد می کے خرید نے سے کونسا یہ
دکان ترقی کر جاۓ گی- باہر کی کمپنی والے لوگ اشتہار اور معیار پر اتنا خرچ کرتے
ہیں،' ماما نے بحث کے موڈ میں جواب دیا-
'ہاں ہمارے ہی پیسوں سے۔۔۔۔، اچھا نہیں وہی پیسے
ہم اپنی کمپنیوں کو دیں- ویسے بھی تبدیلی ایک آدمی سے ہی شروع ہوتی ہے،' بابا نے
جواب دیا-
برگر تازہ اور بہت مزے کا تھا اور ساتھ بھت سارے
چپس بھی تھے- آمنہ نے مزے سے کھایا لیکن وانیہ اُداس تھی کہ اس کے بابا ہمیشہ ہی
ایسا کرتے ہیں- وہ اب اپنی باقی دوستوں کی طرح شوخییاں کیسے دکھاۓ گی؟
'وانیہ آپی، آپ نے نہیں جانا ہے تو ٹھیک میں جا
رہی ہوں،' امنہ نے وانیہ کو سوچ میں گم دیکھ کر پوچھا-
'ہاں چلو،'
وہ سب
کزن بازار کی طرف آگۓ- فریج ہر طرح کی آئسکریم سے بھرا ہوا تھا- غیر ملکی کمپنی کی سستی اور مہنگی ہر طرح کی آئسکریم
رکھی ہوئ تھی تاکہ ہر بچہ بس وہی خریدے- سب بچوں نے اسی کی آئسکریم لی کیونکہ اس کہ
اشتہار سارا دن ٹی وی پر چلتے ہیں- وانیہ کچھ دیر کھڑی سوچتی رہی-
انکل! کون سی آئس
کریم پاکستانی کمپنی کی ہے؟
'ساری ہی پاکستان
میں بنی ہیں،' دکاندار نے سادگی سے جواب دیا۔
میں یہ جانتی ہوں
کہ ساری آئسکریم یہاں بنی ہیں لیکن کون سی آئس کریم کی کمپنی مقامی ہے، غیر ملکی
نہیں۔'
میں اپنے یوم آزادی
پر کسی غیر ملکی برانڈ سے آئس کریم نہیں لینا چاہتی-'
انکل نے
قلفی اٹھائ-' میرا خیال ہے یہ والی مقامی ہے،'
'ہمیں
اپنے مقامی برانڈز کو جاننا چاہیے تاکہ وہ بھی کمائیں اور ملک کی ترقی میں حصہ لیں،'
وانیہ نے کہا-
'ہاں بالکل، یہ
دیکھو صرف قلفی ہی نہیں بلکہ اس کپمنی کی چاکلیٹ اور کون آئسکریم بھی بہت مزے کی
ہے،' انکل نے خوش ہو کر بتایا اور وہ آئسکریم اوپر رکھ دی-
وانیہ کو دیکھ کر
باقی سب بھی وہ آئسکریم لینے لگے-
'ہمیں پرواہ نہیں کرنی چاہیے کہ دوسرے لوگ کیا سوچتے ہیں یا کرتے ہیں کیونکہ تبدیلی ایک شخص سے ہی شروع ہوتی ہے ، 'وانیہ نے سوچا-
'آزادی صرف لفظی نہیں بلکہ عملی ہونی چاہیے-'
جشن آزادی مبارک
پاکستان زندہ باد
چلیں بتائیں کیا سیکھا-
س- کیا آپ آدازی کا صحیح مطلب جانتے ہیں؟
س- آپ جشن آزادی پر اپنے ملک کی محبت کے اظہار کے لۓکیا خاص کرنا چاہتے ہیں؟
- کیا آپ سمجھتے ہیں کہ نوجوان اور بچے پاکستان کو ترقی کے راستے پر لا سکتے ہیں-واس-