FATEH MAKKAH فتح مکہ-
یہ "اسلامیات
گائیڈ" سکول کے طلباء کے ہوم ورک میں آن لائن مدد کے لۓ انتہائ احتیاط اور
نیک نیتی سے تیار کی گئ ہے- اس کے لکھنے میں پنجاب گورنمنٹ کی درسی کتابوں سے مدد لی گئ
ہے- ٹائپینگ ، املا یا کسی بھی غلطی کی نشاندہی اور اصلاح کے لۓ ای میل کریں یا نیچے کمنٹ میں بتائیں-
س1 - فتح مکہ کا پس
منظر بیان کریں؟
جواب – صلح حدیبیہ میں مسلمانوں اور قریش کے درمیان یہ معاہدہ طے پایا تھا کہ دونوں دس سال تک جنگ نہیں کریں گے اور عرب قبائل جس کے ساتھ ملنا چاہیں مل جائیں- قبیلہ بنو خزاعہ مسلمانوں کا حلیف بن گیا، جبکہ بنو بکر نے قریش مکہ کے ساتھ معاہدہ کرلیا- پرانی دشمنی کے سبب بنو بکر نے رات کی تاریکی میں بنو خزاعہ پر حملہ کردیا- بنو خزاعہ نے خانہ کعبہ میں پناہ لی – بنو بکر نے خانہ کعبہ میں داخل ہو کر بنو خزاعہ کا خون بہایا- قریش مکہ نے
بنو بکر کا پورا ساتھ دیا-
بنو خزاعہ کے ایک وفد نے رسولؐ
کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ قریش اور بنو بکر نے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے اور خانہ کعبہ کی حرمت کا بھی خیال نہیں رکھا- آپؐ ہماری مدد کریں- اس واقعے کے تناظر میں فتح مکہ کا سبب بنا-
س- نبی اکرمؐ
نے قریش کو کونسی تین شرائط
پیش کیں-
جواب - نبی اکرمؐ نے
رضی اللہ تعالیٰ عنہحضرت ضمرہ
کو قریش مکہ کی طرف بھیجا
اور یہ تین شرائط پیش کیں- تاکہ قریش ان میں سے کسی ایک شرط کو مان لیں اور حجت
تمام ہو جاۓ-
1بنو خزاعہ کے مقتولین کا خون بہا دیا جاۓ
2بنو بکر کی حمایت سے دست بردار ہو جائیں
3معاہدہ حدیبیہ کے ختم ہوتے کا اعلان کریں-
قریش مکہ نے جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ تیسری
شرط مان لی لیکن جلد ہی انھیں اپنی بد عہدی اور غلطی کا احساس ہو گیا-
س- فتح مکہ سے قبل ابو سفیان کے کردار کا ذکر
کریں؟
جواب- قریش نے ابو سفیان کو اپنا نمائندہ بنا کر مدینہ منورہ بھیجا تاکہ صلح حدیبییہ کی تجدید کی جاۓ- ابو سفیان رسولؐ
کی خدمت میں حاضر ہوا لیکن آپؐ
نے اسے کوئ جواب نہیں دیا- اس کے بعد وہ کئ
صحابہ سے ملا لیکن صلح کی تمام کوششیں ناکام ہونے پر وہ مکہ واپس لوٹ گیا-
س- - فتح مکہ کے وقت اسلامی لشکر کی پیش قدمی پر
نوٹ لکھیں-
جواب- رسول اکرمؐ
10
رمضان المبارک 8 ہجری کو مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوۓ- آپؐ کے ساتھ دس ہزار صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم تھے- حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو ابھی تک مکہ میں مقیم تھے، اپنے اہل و عیال کے ساتھ ہجرت کر کے مدینہ کی طرف جا ریے تھے- وہ مقام جحفہ میں رسول اکرمؐ
کی خدمت میں حاضر ہوۓ- آپؐ
کی ہدایت کے مطابق انھوں نے اپنے اہل و عیال کو مدینہ بھیج دیا اور خود لشکر اسلام میں شامل ہو گۓ- آپؐ
نے سفر جاری رکھا اور آخری پڑاؤ مرّ الظّہران میں کیا-
س- مرّ الظہران پہنچ کر آپؐ
نے صحابہ کو کیا حکم دیا؟
جواب- مرّ الظّہران مکہ سے تھوڑے فاصلے پر ہے- رسولؐ
کے حکم سے تمام فوج نے الگ الگ جگہ آگ روشن کی-
س- قریش نے کس کو مسلمانوں کی پیش قدمی اور تیاریوں کے بارے میں
معلوم کرنے مرّ الظّہران بھیجا؟
جواب- تحقیق کے لۓ قریش نے ابو سفیان بن حرب، حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقہ کو بھیجا- نبی اکرمؐ
کے خیمہ کی حفاظت پر متعین دستے نے انھیں دیکھ لیا اور پکڑ
کر آپؐ
کے سامنے پیش کیا
آپؐ نے ابو سفیان کو اسلام کی دعوت دی – ابو سفیان نے دعوت قبول کر لی اور اسلام لے آۓ-
س-
فتح مکہ
کے وقت حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آپؐ
نے ابو سفیان کے بارے میں کیا فرمایا؟
جواب-آپؐ
مرّ الظّہران سے مکہ کی طرف روانہ ہونے لگے تو حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے
فرمایا کہ ابو سفیان کو پہاڑ کی چوٹی پر لے جا کر کھڑا کرو تاکہ وہ اللہ کے لشکر
کا نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں-
س ـ
حضور اکرمؐ
ابو سفیان نے
رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عزت افزائ کس طرح کی؟
آپؐ
نے فرمایا جو بھی نے ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر پناہ لے گا اسے امان ہے، اس کے علاوہ جو ہتھیار ڈال دے، مسجد حرام میں داخل ہو جاۓ یا اپنا دروازہ بند کر لے اس کو بھی امان ہے-
حضرت ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ تیزی سے مکہ مکرمہ پہنچے اور حضور اکرمؐ
کا پیغام دیا اور قریش مکہ کو بتایا کہ ان میں
مسلمانوں سے لڑنے کی ہمت نہیں ہے-
س- فتح مکہ کی مناسبت سے حضرت خالد بن ولید رضی
اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں ایک پراگراف لکھیں-
جواب-
حضور اکرمؐ
نے مکرمہ داخل ہو کر اسلامی لشکر کو چار حصوں میں تقسیم کردیا- حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لشکر سے لڑنے کے لۓ قریش کے کچھ نوجوان آۓ اور معمولی سے جھڑپ میں تیرہ لاشیں چھوڑ کر فرار ہو گۓ- حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ مکہ مکرمہ کی گلی کوچوں سے ہوتے ہوۓ کہ صفا پر حضور اکرمؐ
سے جا ملے-
س-
حضور اکرمؐ
کا فتح مکہ کے موقع پر مسجد حرام میں داخل ہونے
کا منظر اپنے الفاظ میں پیش کریں؟
جواب-
حضور اکرمؐ
انصار اور مہاجرین کے ساتھ پر مسجد حرام میں داخل ہوۓ- حجر اسود کو چوما اور اپنی اونٹنی پر بیت اللہ کا طواف کیا- طواف کے بعد حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے خانہ کعبہ کی چابی لی- اس وقت آپ کے ھاتھ میں ایک کمان تھی اور بیت اللہ کے اندر تین سو ساتھ بت رکھے ہوۓ تھے- آپؐ
نے اسی کمان سے خانہ کعبہ کے اندر رکھے ہوۓ تمام بت
گرادیۓ-
آپؐ
بت گراتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے:سورۃ بنی اسرائیل کی یہ آیت پڑھتے جاتے تھے-
"حق آگیا اور باطل مٹ گیا- بے شک باطل
مٹنے ہی والا ہے-" (81:17)
آپؐ
نے خانہ کعبہ کے اندر نماز ادا فرمائ اور باہر
تشریف لے آۓ-
س-
حضور اکرؐم
نے فتح مکہ کے موقع پر قریش سے خطاب میں
کیا ارشاد فرمایا؟
قریش مسجد حرام میں صفیں باندھیں کھڑے تھے-
آپؐ نے اللہ کی حمد وثنا کے بعد قریش سے فرمایا:
"قریش کے
لوگو! تمہارا کیا خیال ہے میں تمہارے ساتھ کیسا سلوک کرنے والا ہوںَ
وہ بولے: اچھا-
آپؐ
شریف بھائ ہیں اور شریف بھائ کے صاحب زادے ہیں-
آپؐ
نے فرمایا: تو میں تم سے وہی بات کہہ رہا ہوں جو
حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی: آج تم پر کوئ سرزنش نہیں- جاؤ تم سب
آزاد ہو-"