غزوہ تبوک-
Ghazwa Tabuk Notes
یہ "اسلامیات
گائیڈ" سکول کے طلباء کے ہوم ورک میں آن لائن مدد کے لۓ انتہائ احتیاط اور
نیک نیتی سے تیار کی گئ ہے- اس کے لکھنے میں پنجاب گورنمنٹ کی اسلامیات درسی کتابوں سے مدد لی گئ
ہے- کسی غلطی کی نشاندہی اور اصلاح کے لۓ ای میل کریں یا نیچے کمنٹ میں بتائیں-
س - غزوہ تبوک کا پس منظر لکھیں؟ غزوہ تبوک کیوں پیش آیاَ؟
جواب- فتح مکہ کے بعد مسلمانوں کا رعب و دبدبہ پورے عرب میں پھیل گیا تھا- لوگ جوق در جوق اسلام قبول کررہے تھے- آس پاس کی ریاستوں کے فرمانرواؤں کو نبی اکرم حضرت محمدؐ
خطوط لکھ کر اسلام کی دعوت دے چکے تھے- یہ ریاستیں اب مسلمانوں کی بڑھتی ہوئ طاقت سے خوف زدہ تھے- روم کا حکمران ہرقل بھی ان میں شامل تھا- اس نے مسلمانوں سے مقابلے کے لۓ چالیس ہزار کا لشکر تیار کیا-
جب آپؐ
کو اس بارے میں معلوم ہوا کہ رومی فوجیں شام کی سرحد پر جمع ہورہی ہیں تو آپؐ
نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم کو جہاد کی تیاری کا حکم دیا- یہ آپؐ
کی زندگی میں مسلمان مجاہدین کی سب س بڑی تعداد تھی- غزوہ تبوک حضورؐ
کی آخری فوجی مہم تھی- اس میں تیس ہزارصحا بہ نے حصہ لیا-
س-غزوہ تبوک کے موقع پر صحابہ کرام رضی اللہ
تعالیٰ عنھم نے کس طرح مالی مدد کی؟
جواب- قحط سالی کی وجہ سے یہ سال مسلمانوں کے لۓ بہت مشکل تھا لیکن نبی اکرمؐ
کے حکم پر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم نے جہاد کی بھرپور تیاری کی- حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا پورا گھر کا سامان لا کر نبیؐ
کی خدمت میں پیش کردیا-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے گھر
کا آدھا سامان پیش کیا-
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نو سو اونٹ، ایک
سو گھوڑے، ایک ہزار دینار، دو سو اوقیہ چاندی پیش کیا-
بعض صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم اس قدر بے سروسامان تھے کہ انھوں نے اپنی جانیں آپؐ
کی خدمت میں پیش کردیں اور درخواست کی کہ انھیں جہاد فی سبیل اللہ میں ساتھ لے جایا جاۓ- آپؐ
نے سواریوں کی کمی کی وجہ سے انھیں مدینہ منورہ
میں ہی ٹھہرنے کا حکم دیا-خلوص اور جزبات کی وجہ سے ان کے آنسو نکل آۓ- اللہ
تعالیٰ نےسورۃ التوبہ میں ارشاد فرمایا-
"اور اس غم سے کہ ان کے پاس خرچ موجود نہ تھا ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ
رہے تھے-" ( 92: 9 )
س- مدینہ منورہ سے تبوک تک کا سفر کیسا تھا؟
"جیش العسرۃ" کا کیا مطلب ہے؟
جواب- یہ سفر بہت مشکل تھا- سواریوں کی کمی کی
وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم باری باری سواری کرتے تھے- اٹھارہ آدمیوں
کے لۓ ایک اونٹ تھا- اکثر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم نے یہ طویل سفر پیدل ہی
طے کیا- مسلمانوں نے آٹھ سو پانچ کلومیٹر کا فاصلہ انتہائ استقامت اور صبر سے طے
کیا- سامان کی تنگی اور سفر کی تکلیف کی وجہ سے اسے "جیش العسرۃ" یعنی
تنگی کا سفر بھی کہا جاتا ہے-
س- رومی فوج مقابلے پر کیوں نہ آئ؟
جواب- مسلمانوں کی جرات اور بہادری کا سنتے ہوۓ رومی فوج مقابلے پر آنے کی جرات نہ کرسکی- اس غزوہ میں مسلمانوں کو بغیر لڑائ ہی فتح نصیب ہوئ- آپؐ
نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم کے ساتھ
بیس دن تک تبوک کے مقام پر قیام کیا اور پھر واپس آگۓ-
س- غزوہ تبوک کے کیا اثرات مرتب ہوۓ؟
جواب- 1- مسلمانوں کا حصلہ بلند ہوا-
2- رومیوں اور شامیوں کے حوصلے پست ہو گۓ-
3- ارد گرد کی عیسائ آبادیوں پر مسلمانوں کا رعب
و دبدبہ بڑھ گیا-
4- بہت سے سرحدی قبائل نے جزیہ دے کر مسلمانوں
کی اطاعت قبول کر لی-
5- اسلامی سرحدیں اور پھیل گیئں-
س-
غزوہ تبوک میں مسلمانوں کا لشکر کتنا تھا؟
جواب- سن 9 ہجری اکتوبر 630 میں آپؐ
کی قیادت میں تیس ہزار صحابہ کرام رضی اللہ
تعالیٰ عنھم شام کی طرف روانہ ہوۓ-
س- حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوہ تبوک میں
کیوں حصہ نہ لیا؟
- حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت محمد ﷺ کے حکم کے مطابق مدینہ میں ہی رہے اور اس کا انتظام سنبھالا-
س- کونسے تین صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم نے غزوہ
تبوک میں شامل نہ ہونے کے لۓ حجت کی ؟
یہ تین صحابہ کرام
کعب بن مالک، مرارہ بن ربیعہ الامری، اور ہلال بن اُمیہ
رضی اللہ تعالیٰ عنھم
تھے-
س- قران پاک کی کس سورت میں غزوہ تبوک کا ذکر
ہے؟
- سورۃ التوبہ
یہ "اسلامیات
گائیڈ" سکول کے طلباء کے ہوم ورک میں آن لائن مدد کے لۓ انتہائ احتیا ط اور نیک نیتی سےتیار کی گئ ہے- اس کے
لکھنے میں گورنمنٹ کی درسی کتابوں سے مدد لی گئ ہے- کسی غلطی کی نشاندہی اور اصلاح
کے لۓای میل کریں یا نیچے کمنٹ میں بتائیں-