Advertisement

Monday, 1 November 2021

ایک تھا غر یب ملک کا صدر- بچوں کی اردو کہانی DOWNLOAD PDF OR READ ONLINE-لیول 2-fusionstories

اردو کہانی

مصنفہ: صائمہ ندیم



 ایک تھا غریب ملک کا صدر





وہ ایک امیر ملک تھا- اتنا امیر کہ اس کے ہر رہنے والے کے پاس اپنا گھر اور اچھی گاڑی تھی- گھر جدید سامان سے بھرے ہوۓ - کچن میں انواع و اقسام کے کھانوں کی خوشبو پھیلی رہتی تھی -  تعلیم، صحت اور روزگار کی ذمہ داری حکومت بخوبی نبھا رہی تھی- لوگ فارغ وقت میں کتابیں لکھتے اور چھٹیوں میں خوب مزے کرتے تھے- خوشحالی وہاں کے رہنے والوں کے چہروں سے عیاں تھی- وہاں نہ تو کوئ فقیر نظر آتا اور نہ ہی لوٹ مار کا خوف تھا- روشنیاں صرف بازاروں میں نہیں بلکہ وہاں کے لوگوں کی زندگی میں بھی جگمگا رہی تھیں-  

اس امیر ملک کی نئ نوجوان خاتون صدر نے اپنی حکومت کی سالگرہ کی خوشی میں بہت بڑی تقریب کا اہتمام کیا- تمام دنیا کے امیر ملکوں کے سربراہان کو شانداردعوت نامے بھجواۓ گۓ- اس تقریب میں کسی غریب ملک کو دعوت نہ دی گئ-  کئ غریب ملکوں کے سربراہ بھی اس تقریب میں جانا چاہتے تھے اور ہاشم بھی ان میں سے ایک تھا-

ہاشم بھی کچھ عرصہ پہلے اپنے غریب ملک کا صدر بنا تھا- اس کے ملک میں بھوک، غربت اور بے روزگاری چھائ ہوئ تھی- ہر کوئ پریشان اور بے حال   تھا - ملک قرض تلے دبا ہوا تھا-

 وہ دن رات اپنے ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لۓ کوشش کر رہا تھا لیکن کوئ سِرا اس کے ہاتھ نہیں آرہا تھا- وہ اس تقریب کی خبریں ٹی وی پر دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا،

'کچھ سال پہلے یہ ملک بھی کتنا غریب تھا- اس ملک کے نہ تو تیل کے کنوئیں نکلے اور نہ ہی یہاں سونے کی کانیں ملیں پھر اس ملک کے دن رات کیسے بدل گۓ؟'

آخر اس ترقی کا راز کیا ہے؟ کیا ہے؟' وہ بے چین ہوگیا-

'محنت۔۔۔۔ ایمانداری۔۔۔۔۔ دولت ۔۔۔ صبح جلدی جاگنا۔۔۔۔نظم و ضبط ۔۔۔۔ہتھیار۔۔۔۔ طاقت ۔۔۔ یا کچھ اور۔۔۔ ۔ہاں ۔۔۔ کچھ اور ہے۔۔۔۔ اور وہ کیا ہے ۔۔۔۔ یہ مجھے جاننا ہے۔۔۔۔ ترقی کا اصل راز کھوجنا ہے۔۔۔۔تاکہ میرا ملک بھی امیر ہو سکے۔۔۔،' وہ سوچے جارہا تھا-

'سر جی، آپ سے پہلے کے صدور نے بھی بہت سے ترقی یافتہ ملکوں کے ترقی کےماڈل یہاں شروع کۓ لیکن کوئ فائدہ نہ ہوا- یہ لوگ ترقی کرنا ہی نہیں چاہتے۔۔۔ ویسے بھی آپ کی حکومت پانچ سال کی ہے اور وہ بھی اپوزیشن سے نبٹتے گزر جاۓ گی- آپ ان لوگوں پر اپنا وقت ضائع نہ کریں – بس انھیں اچھے وقت کی تسلیاں دے کر اپنی حکومت کا وقت پورا کریں،' اس کے وزیر نے مشورہ دیا- ہاشم مطمئین نہ ہوا- وہ ہر صورت اس خاتون صدر سے ملنا چاہتا تھا-

 اس نے ترقی کا رازجاننے کے لۓ اس تقریب میں جانے کا فیصلہ کیا- ہاشم کے ملک کی درخواست اور ایک امیر ملک کی سفارش پر ہاشم کو بھی امیر ملک کی طرف سے تقریب کا دعوت نامہ بھجوا دیا گیا- آخر وہ دن آگیا جب تمام دنیا کے امیر اور طقتور سربراہ اس شاندار عمارت میں جمع تھے- خاتون صدر سرخ بلاؤز اور کالی اسکرٹ پہنے انتہائ پروقار اور جاذبِ نظر آرہی تھیں- اس کے کانوں میں پہنے ہیرے کے ٹاپس آج خوب چمک رہے تھے-  اس تقریب کو پوری دنیا کے ٹی وی اور انٹرنیٹ چینلوں براہ راست دکھایا جا رہا تھا- تقریب میں سب سے آگے مہمان سربراہ، ان کے پیچھے دنیا کے مشہور صنعت کار، تاجر اورسائنس دان موجود تھے- امیر ملکوں کے گلوکار اور اداکاروں کے لۓ بھی خاص جگہ مخصوص تھی- ہاشم کو تقریب میں سب سے آخری قطار میں بٹھایا گیا- ہاشم کو وہاں دیکھ کر امیر ملکوں کے سفیر سرگوشیاں کرنے لگے-

'یہ غریب ملکوں کے سربراہ بھی پیسے مانگنے کے لۓ کیا کچھ کرتے ہیں- اب یہاں یہ سب ملکوں سے قرضہ مانگے گا،' ایک ملک کے سفیر نے کہا-

'صحیح کہا، یہ غریب ملک کے لوگ بہت ہی بے ایمان اور جھوٹے ہوتے ہیں،'

'کام چور اور نکمے بھی۔۔۔،' دوسرا سفیر ہنسنے لگا-

' یہاں تو بڑے بڑے معاہدے ہوں گے- ہر ملک اپنی صلاحیت دکھاۓ گا- یہ غریب ملک تو ویسے بھی ہمارا دیا ہو، ہمارا بنایا ہوا بلکہ ہمارا چھوڑا ہوا کھاتے ہیں- ہماری صدر واقعی نرم دل خاتون ہیں ویسے اسے بلانا نہیں چاہیے تھا،' پہلے سفیر نے ذرا اونچا کہا-

ہاشم یہ سب باتیں سن رہا تھا اور انھیں برداشت کرنے کے علاوہ اس کے پاس کوئ اور راستہ نہ تھا- اسے اپنا اصل مقصد یاد تھا-

 تقریب کے ختم ہوتے ہی ہاشم تیزی سے امیر ملک کی نئ صدر کے پاس پہنچا اور جوش میں ہاتھ آگے بڑھایا-

'تم لوگ بھی اگر محنت کرنا سیکھ لو تو مانگنے کے نۓ نۓ طریقے نہ ڈھونڈنے پڑیں- بہرحال میں تمہارے ملک کی کچھ امداد کے لۓ سفارش کردوں گی،' امیر ملک کی صدر ن نخوت سے ہاشم کو دیکھا اور ہاتھ ملاۓ بغیر جلدی سے آگے بڑھنے لگی-

'' میں یہاں کسی امداد کے لۓ نہیں آیا۔۔۔۔،' ہاشم کی اُونچی آواز سن کر سارے سربراہ چونک گۓ- ہال میں موجود کیمروں کے رُخ ہاشم کی طرف مُڑ گۓ-

'میرے ملک کے کسان بھی صبح سے رات تک ہل جوتتے ہیں- میرے مزدور کے ہاتھ مٹی اور سیمنٹ ڈھو ڈھو کر سخت ہو گۓ ہیں- میرے ملک کے دفتروں میں سب لوگ بے ایمان نہیں، نہ ہی سارے دکاندار ہیں  سارے دغاباز- سکول، کالج اور یونی ورسٹی سب ہیں آباد لیکن پھر بھی کوئ نہیں شاد-  میں صرف جاننے آیا ہوں  ترقی کا اصل راز ۔۔۔۔ '،

' ترقی کا اصل راز جاننا ہے کچھ خاک چھانو – اس ٹھنڈے ہال اور فقیر حال کچھ 

نہیں ملے گا،' ایک سربراہ نے قہقہہ لگایا-

URDU KAHANI ONLINE FREE

کیمرے کے سامنے اور پیچھے سب لوگ بھی ہنسنے لگے جن میں وہ خاتون صدر بھی شامل تھی– ہاشم کے لۓ اب مزید بے عزتی ناقابلِ برداشت ہو چکی تھی- وہ تیزی سے ہال سے باہر آیا اور سڑکوں پر دیوانہ وار چلنے لگا- اس نے اپنا موبائل اور پرس ایک طرف پھینک دیا- وہ کئ گھنٹوں تک چلنے کے شہر سے باہر نکل آیا- اس کے سامنے گھنے درختوں سے گِھرا ایک پہاڑ تھا جس میں سے کئ گہری آبشاریں پھوٹ رہی تھیں- ہاشم کہیں گُم ہوجانا چاہتا تھا- وہ ذلت بھری باتیں اس کے کانوں میں گونج رہی تھیں-

 ہر طرف غریب ملک کے صدر کی گمشدگی کی خبر پھیل گئ- تمام ایجینسیاں اور پولیس اسے ڈھونڈنے لگی – پہاڑ اور جنگل میں سرچ آپریشن شروع کۓ گۓ- لیکن کئ دن تک اس کا کچھ پتہ نہ چلا- تقریبا تمام دنیا میں ایک غریب ملک اور اس کے صدر کی گمشدگی کی باتیں ہو رہی تھیں - کچھ لوگوں کو خیال تھا کہ ہاشم کو کسی شیر نے کھا لیا ہوگا یا اس نے کسی اونچی آبشار سے کُود کر خود کشی کرلی ہوگی - جب ہاشم کا کوئ سراخ نہ ملا تو آخر چند دن بعد اس کی موت کی خبر عام ہو گئ- غریب ملک کی عوام اپنے ملک کے صدر کی ذلت اور ایسے انجام پر سخت رنجیدہ تھی-  اب ایک نۓ سربراہ کو چُنا جانا تھا- ملک میں الیکشن کی تیاری ہو رہی تھی کہ کئ ہفتوں کی گمشدگی کے بعد ایک صبح ہاشم اپنے دفتر پہنچ گیا- وہ سوکھ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا تھا کہ اس کے لۓ چلنا بھی محال نظر آرہا تھا- اب سب لوگ بے چین تھے کہ آخر ہاشم کہاں تھا اور وہ کیا کرنے والا ہے- ہاشم پھر پوری دنیا کی خبروں کا مرکز تھا- کچھ گھٹوں بعد ہاشم پورے اعتماد سے ٹی وی پر نظر آیا-

 

  "کچھ نیا کرو- آج سے کل شروع کرو،' ہاشم نے خطاب شروع کیا-

 'اس کے ملک کے تمام لوگ آج سے کچھ نہ کچھ نیا بنائیں گے- دفتری ملازم، حکمران، گھریلو خواتین، کسان، مزدور، تاجر۔۔۔ غرض کہ سب کو کچھ نہ کچھ نیا بنانا ہو گا- ایک نئ کہانی، نئ ایجاد، نیا نظام ۔۔۔ جو آج سے پہلے کسی نے دیکھا نہ ہو، سنا نہ ہو- نئ چیز بنانا ہر شہری کے لۓ لازم ہوگا- ہر شہری کو تین ماہ میں اپنی نئ چیز کا آئیڈیا یا خیال پیش کرنا ہوگا- تمام لوگ اپنا کام حکومت کے چینل پر بھیجیں سکیں گے جہاں سے وہ حکومت کی مرضی سے سب کو دکھایا جاۓ گا- چھ ماہ میں کام مکمل کرنا ہوگا- جو کسی نۓ اور منفرد خیال پر کام نہیں کرے گا اسے چھ ماہ یا اس سے زیادہ وقت کے لۓ نۓ خیال اور نۓ تجربے پر کام کرنے والے شخص کی غلامی میں دے دیا جاۓ گا- اس کا سامان ضبط کرلیا جاۓ گا، چاہے وہ فرد ہو یا ادارہ- نئ چیزوں کی ایجاد میں حکومت کوئ مالی مد د نہیں کرے گی- بہرحال کسی نیا کام کرنے والے کو بڑے انعامات دیے جائیں گے- چلو اب کام شروع کردو،' ہاشم نے مختصر سا خظاب کیا-   

لوگ اس اعلان پر حیران رہ گۓ- لگتا ہے ہماری صدر تو واقعی سٹھیا گیا ہے-

 

'میں کیا بناؤں --- سب کچھ تو پہلے ہی بن چکا ہے،' ایک نوجوان خطاب سنتے ہی بولا-

'اگر یہ اعلان کچھ سال پہلے ہوتا تو میں موبائل بنا لیتا یا مائیکروسافٹ کا بانی تو میں ہی ہوتا،' دوسرے نوجوان نے ہاں میں ہاں ملائ-

'بلب تو میں نے ہی بنانا تھا اگر ایڈیسن سے پہلے پیدا ہو جاتی،' ایک خاتون انجینیئر نے تبصرہ کیا-

'اور نہیں تو کیا، جہاز تک تو بن گیا- لوگ خلا میں بھی چلے گۓ – وہ امیر ملک ہیں کچھ بھی بنا سکتے ہیں- ہمیں کون پوچھتا ہے- ہاں لیکن اگر حکومت ہمیں فنڈز دے دے تو ہم بہت بڑا اور نیا کام کر سکتے ہیں،' ایک تحقیقی ادارے کا سربراہ بولا-

اس ملک کے لوگوں نے اس اعلان کو بالکل سنجیدہ نہ لیا یہاں تک کہ حکومت کی طرف سے سختی شروع ہو گئ- کچھ نیا نہ بنانے والے اداروں کی تنخواہیں روک لی گئیں- عام لوگوں اور حتیٰ کہ گھریلو خواتین س نۓ تجربات ک بارے میں پوچھ گچھ ہونے لگی-

 تب ہی سختی سے جان چھڑانے کے لۓ ایک بڑی کمپنی نے کچھ نیا بنا لینے کا اعلان کردیا – اس نے صدر کو اس ایجاد کو دیکھنے کی دعوت دی- ہاشم ایک کھلے میدان میں سجی تقریب میں  پہنچا تو اس کپمنی کا مالک اپنی نئ ایجاد پیش کرنے کو تیار تھا-

'ہم نے ایک ایسی گاڑی بنائ ہے جو ہوا میں اڑ سکتی ہے اور پانئ میں تیر سکتی ہے اور اب پیش ہے اس گاڑی کا کامیاب تجربہ۔۔۔ ،' مالک نے فخریہ بتایا-

گاڑی واقعی شاندار تھی- چھوٹی سی بالکل کسی پرندے کی مانند- اس کے چاروں طرف پر تھے اور اس کا تجربہ بھی کامیاب تھا- گاڑی دو لوگوں کولے کر ہوا میں اڑنے لگی اور پھر اس نے پر سمیٹےاور نیچے ایک پانی کے تالاب میں اتر کر کشتی کی طرح تیرنے لگی- مالک نے ہاشم کی طرف یکھا جو تمام وقت خاموش تھا-

'اس میں نیا کیا ہے؟' ہاشم نے اونچا سوال کیا-

وہاں موجود سب لوگ حیران رہ گۓ-

'ایسی گاڑی کے بارے میں پر تو دنیا میں بہت سے لوگ تجربات کررہے ہیں اور تقریباً بنا بھی چکے ہیں-  مجھے ایسی چیز چاہیے جو پہلے کسی نے سنی نہ ہو کسی نے دیکھی نہ ہو۔۔۔ ،'

'لیکن سر۔۔۔۔،'

'ایک منٹ۔۔۔۔یہ دیکھو یہ ہے کچھ نیا۔۔۔۔،'

 کچھ دیر بعد ہاشم کے اشارے پر ایک موٹر مکینک اندر آیا-

 

'میرا نام عبد الولی ہے- میں ایک موٹر مکینک ہوں غربت کی وجہ سے مجھے اپنی تعلیم ادھوری چھو ڑنی پڑی اور کمانے کے لۓ اپنے گھر والوں سے دور شہر آنا پڑا- شہر مہیں میں نے کئ فیکڑیوں اور ورکشاپوں میں کام کیا اور ہر جگہ کچھ نہ کچھ نیا سیکھا- آپ یہ کہہ لیں کہ نت نۓ تجربات کرنا میرا شوق ہے- یہ خیال بچپن سے میرے دماغ میں تھا کہ انسان کسی طرح جن کی طرح غائب ہو کر دوسری جگہ پہنچ جاۓ- اس طرح میں بھی جب چاہوں گا اپنے گھروالوں سے مل پاؤں گا- یہ میرے خیال اور اس کۓ جانے والے تجربات کی ایک کوشش ہے۔۔۔  پیش ہے "عبد الولی اُڑن چھومشین"،۔'

 یہ کہہ کر عبد الولی ایک طرف رکھے شیشے کے ڈبے کی طرف بڑھا- یہ بڑا سا شیشے کا ڈبہ بظاہر خالی لگ رہا تھا- پھر اس نے کچھ دور میدان میں تاروں کی مدد سے ایک مربع شکل کھینچی اور وہاں ایک موبائل رکھ دیا-  یہ سب کمپیو ٹر کی بڑی سکرین پر بھی نظر آرہا تھا-  عبد الولی واپس  ڈبے کی طرف آیا اور شیشے کے ڈبے میں داخل ہوا جو کہ بظاہر خالی لگ رہا تھا لیکن عبدالولی کے مطابق اس میں برقی لہریں قید تھیں- یعنی عبدالولی ایک موبائل کے اندر تھا- اس نے اپنے تھیلے سے ایک پلاسٹک  کے لفافے  دستانے نکالے – اس نے یہ دستانے ہاتھوں میں چڑھاۓ –لگا-سب اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے- پھر وہ کسی جادوگر کی طرح کچھ پڑھنے ا ہاتھوں کو گول گول گھمانے لگا- لمحوں میں شیشے کا ڈبہ گول گول گھومنے لگا اور فرش پر لوٹ پوٹ ہونے لگا-

 ڈبے کے آس پاس چنگاریاں اڑنے لگیں جیسے ڈبے کو آگ لگ جاۓ گی- سب لوگ پریشان ہو کر کھڑے ہو گۓ- کچھ لوگ ڈبے کی طرف بھاگے کہ اس نوجوان کی مدد کر سکیں- ابھی لوگ ڈبے کے قریب پہنچے ہی تھے کہ اچانک ڈبہ غائب ہوگیا- اب سب لوگ پریشان ہو کر میدان میں لگاۓ دوسرے نشان کی طرف آۓ لیکن وہاں بھی کچھ نہ تھا- سب لوگ صدر کو اس نوجوان کی گمشدگی کا ذمہ دار قرار دینے لگے جس کی جذباتیت کی وجہ سے لوگ الٹے سیدھے تجربات کر رہے تھے-اگر یہ تجربہ کامیاب ہو بھی جاتا تویہ صرف آدھے منٹ کا پیدل راستہ تھا- لوگ مذاق اڑانے لگے- 

اب اس  اڑنے والی گاڑی کا مالک نہایت فخر سے سب کو اپنی ایجاد کے بارے میں  دوبارہ بتانے لگا اور سائنس دان فزکس کے قوانین کی مدد سے اس لڑکے کا کھوج لگانے لگے- تقریباً ایک گھٹنے کے انتظار کے بعد ہاشم وہاں سے جانے والا تھا کہ میدان میں لگے نشان کے آس پاس چنگاریاں اڑنے لگیں اور لمحوں میں وہی ڈبہ وہاں نمودار ہوا- کچھ دیر گھومنے کے بعد ڈبہ رکا تو اندر س عبد الولی نظر آیا- تمام لوگ تیزی سے اس کی مدد کے لۓ بھاگے کیونکہ وہ نہایت بے حال نظر آرہا تھا- جسم پر جلنے کے اور چوٹ کے نشان تھے-عبد الولی کو فوراً ہسپتال منتقل کردیا گیا-

حیرت انگیز بات یہ ہوئ کہ بجاۓ شرمندہ ہونے کی ہاشم نے عبدالولی کو اسی گاڑی بنانے والی فیکڑی کا انچارج لگا دیا اور مالک کو حکم دیا کہ وہ تمام انجینئر اور سائنس دانوں کی مدد سےعبد الولی کے تجربات اور نظریے پر کام کرے-

عبدالولی کی مشین کیسے غائب ہوئ، وہ کہاں تھا اور اچانک دوسری جگہ کیسے پہنچ گیا- اس تجربے نے پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا- ٹھیک تھا کہ "عبد الولی آُڑن چھو مشین" کا پہلا تجربہ اتنا کامیاب نہیں تھا لیکن اس پر بہت کام  ہو  سکتا تھا- اور  یہ کام شروع ہو چکا تھا-اس واقعے نے لوگوں کو نیا جذبہ دیا


یہ تو ابھی شروعات تھیں-ابھی کچھ اور دن ہی گزرے تھے کہ ایک نوجوان انجینئر جنید اور اس کے دوستوں نے گاۓ کے دودھ کو بخارات کی مدد سے بادل بنا کر محفوظ کرنے کا طریقہ متعرف کروادیا- انھوں نے اپنی ایجاد کردہ چیز کا نام

'دودھ بادل، دودھ بارش" رکھا-

یہ تجربہ جیسے ہی حکومت کی ویب سائٹ پر پیش ہوا تو لوگ حیران رہ گۓ- کوئ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ تازہ دودھ کو محفوظ کرنا اتنا آسان بھی ہوسکتا-

'کیوں نہیں اگر دودھ کا پاؤڈر بن سکتا ہے، دودھ کو کئ دن تک ڈبے میں محفوظ رکھا جاسکتا ہے تو دودھ کو بادل بنا کر محفوظ نہیں کیا جاسکتا- یہ کام مکمل تجربہ یافتہ لوگ فیکٹری میں کر سکتے ہیں- دودھ کو تیز آنچ پر ابالا جاۓ گا- اس کی بھاپ یا بخارات کو بلند نالیوں کے زریعے ہوا میں پہنچایا جاۓ گا- جہاں دودھ بادل کی شکل میں محفوظ رہے گا- ضرورت پڑنے پر دودھ کو بادل کی شکل میں ہی سپلائ بھی کیا جاسکے گا،'  جنید اور اس کے دوستوں نے یہ تجربہ اپنی چھوٹی سی لیبارٹری میں کیا تھا-

'کیا اب گھروں میں دودھ کی بارش ہوگی ؟' لوگ حیران تھے-

'صرف بارش نہیں ہو گی بلکہ "جنید دودھ بادل" کے کامیاب تجربے کے بعد ملک میں دودھ کی نہریں بہیں گی ،' جنید کے اعتماد نے سب کو حیران کر دیا-  ہاشم کو اس تجربے کے بارے میں معلوم ہوا تو جنید اور اس کے دوستوں کو شہر کے تمام ڈیری فارموں کا مالک بنا دیا اور تمام ما لکوں کو اس کا غلام-

تب ہی ایک بہت سنیئراستاد نے صدیوں سے قائم روایتی پڑھائ کو چھوڑ کر پڑھانے کا نیا نظام متعارف کروایا تو ہاشم نے فوراً اس استاد کو حکومت کے دس سکولوں کو انچارج بنا دیا جہاں وہ استاد اپنے طریقہ تعلیم پر کھل کر کام کر سکتی تھی-  

ایک بینکر محمد طلال نے تو بنک کے سارے نظام کو بے کار قرار دے دیا- اس نے تجارت اور لین دین کے بالکل نۓ طریقوں کی بات کی- اس کے مطابق ہر گھر میں "پیسوں کا درخت" ہو گا- یہ کوئ عام درخت نہیں تھا بلکہ ایک درخت جیسی مشین تھی جس کو اگر مناسب ایندھن اور توانائ ملتی تو وہ بڑا ہوتا جاتا-جی جناب یہ توانائ کوئ عام توانائ نہیں بلکہ انسانی ذہن سے براہِ راست منسلک تھی- انسان کی سوچ ، کوشش اور عمل سب اس مشین کے ذریعے جانچا جاتا اور اس مشین پر انسانی سر کی طرح بال آجاتے-  اس کے پتوں جیسے بال کرنسی کے طور پر استعمال ہوتے- جتنی محنت ہوتی اتنا ہی بڑا درخت ہوتا- اس سے معاشرے میں بدعنوانی کرنے کا موقع ختم ہوجاتا-

"علم ایسی دولت ہے جو کوئ بھی چوری نہیں کرسکتا" بس اسی مقولے کو ذہن یہ میں رکھ کر میں نے یہ مشین بنائ- اس طریقے سے کمائ اور بچائ جانے والی دولت بھی کوئ چوری نہیں کر سکتا- ہر ادارے، ہر عورت، ہر مرد اور ہر بچے کا اپنا پیسوں کا درخت ہو گا جو وقت کے ساتھ مضبوط ، بڑا اور گھنا ہو گا-  

 "پیسوں کا درخت"  - ایسے آئیڈیاز سن کر لو گ ہنسنے لگے سواۓ ہاشم کے- ہاشم نے اسے طلال کو چھوٹے سے علاقے میں لین دین کے نۓ طریقے پر کام 

کرنے اور زیادہ ریسرچ کرنے کا ٹاسک دے دیا-


 جہاں ہاشم نۓ تجربات کرنے والوں کی حوصلہ افزائ کر رہا تھا وہیں اس نے سُست لوگوں کے ساتھ مزید سختی کا اعلان کر دیا-

'کچھ نیا کرو ورنہ انجام اس س بھی برا ہوگا- اس ملک میں صرف وہی رہے گا جس نے کچھ نیا بنایا ہوگا،' ہاشم نے اپنے ملک کے لوگوں کو دھمکی دی-

ایک طرف تو پورے ملک میں ہاشم کی سختی کے خلاف احتجا ج ہونے لگا تو دوسری طرف لوگ گوگل چھاننے لگے- لائبریری میں لوگوں کا رش بڑھ گیا- سب پہلے فون کیسے بنا؟ بجلی کیسے ایجاد ہوئ؟  پہلا کمپیئوٹر کب بنا؟ کپڑے دھونے کی مشین کس نے بنائ؟ آن لائن اور ورچوئل دنیا کو مزید اصل جیسا کیسے بنایا جاۓ؟ کیسے ممکن ہو کہ انسان برقی لہروں کی طرح   سکرین سے گزر کر دنیا کے دو سرے سِرے پر پہنچ جاۓ؟   کیوں نہ ایسا سدا بہار لباس بنایا جاۓ جو دھونا نہ پڑے اور جو موسم کو جانچ کر خود ہی اپنے آپ کو تبدیل کرلے! کیسے انسان موسموں کی گردش کو اپنے تابع کر لے- لوگوں کی گفتکو کا بس یہی مرکز تھا- ہر طرف نیا کر نیا کرو کی باتیں ہونے لگیں-

 سکول، کالج اور یونیورسٹی میں آدھا وقت پڑھائ اور آدھا وقت  "کچھ نیا کرو" پر کام ہونے لگا- دفتروں، فیکٹریوں اور حتیٰ کہ ہر جگہ "نیا بناؤ" کی تحریک زور 

پکڑنے لگی-

لوگ عجیب و غریب ایجادات کے ساتھ سامنے آنے لگے- کبھی کسی دھماکے کے ساتھ کوئ ورکشاپ تباہ ہوجاتی اور کبھی لوگ اڑنے کے تجربات کرتے نیچے گر کر ذخمی ہو جاتے- پوری دنیا میں ہاشم اور اس کے ملک کے لوگوں کے عجیب و غریب تجربوں کا مذاق اڑایا جانے لگا-لیکن ہاشم کی سختی اور جذبے میں کوئ کمی نہ آئ-

ایک عورت نے تو ایسا میک اپ بنایا کہ جس ہاتھ پر لگاؤ، ہاتھ منہ پر پھیرو تو پورا میک اپ پورے چہرے پر ایسے پھیلا کہ جیسے کسی ماہر نے گھنٹوں لگا کر تیاری کی ہو-اس ایجاد کے ساتھ ہی خواتین تو ہاشم کی بہت بڑی مداح بن گئیں-


ایک گاؤں کے چرواہے اقبال نے تو پتھروں سے گیس بنا کر سب کو حیران کردیا-

 

'میرے گاؤں میں لوگ آگ جلانے کے لۓ لکڑیاں جلاتے تھے اور مجھے روزانہ لکڑیاں جمع کرنا بہت مشکل لگتا تھا- انسان نے سب س پہلے آگ پتھروں کو رگڑ کر ہی تو لگائ تھی- یہ آئیڈیا یا خیال میرے دماغ میں کب سے تھا لیکس صدر صاحب کی کچھ نیا بناؤ کی تحریک نے مجھے جذبہ دیا کہ میں اس پر کام کروں- کافی تجربوں کے بعد میں یہاں اپنی نئ ایجاد کے ساتھ آیا ہوں- میں نے یہ چار بڑے پتھر ایک سانچے میں رکھے- اور اس ہینڈل سے میں میں اس سانچے کو چلاتا ہوں تو پتھر رگڑ کر آگ پیدا ہوتی ہے- اس آگ پر سب کام کے جاسکتے ہیں اور کوئ ایندھن بھی ضائع نہ ہو گا- یہ پتھر بھی لمبا عرصہ قابل استعمال رہیں گے،' چرواہے نے اپنی ایجاد کی داستان سنائ تو ہر کوئ عش عش کر اٹھا- فوراً ایک نیا ادارہ بنایا گیا جہاں وہ چرواہا اپنی نئ ایجاد کو عملی جامہ پہنا سکتا تھا- توانائ کے محکمے میں ایسے لوگوں کی نشاندہی کی گئ جو اب تک نۓ آئیڈیا پر کام نہیں کر رہے تھے- انھیں اس چرواہے کا غلام بنا دیا گیا-

اب جلد ہی گاڑیاں بھی پتھروں کے ایندھن سے چلانے پر غور ہونے لگا بلکہ چھوٹے موٹے تجربات بھی ہونے لگے-ظاہر ہے اس ایجاد کا نام "اقبال چولہا" رکھا گیا-

     

ایک نوجوان جو باہر کے ملک میں کئ سال سے کام کر رہا تھا- وہ بھی اپنے ملک کی تحریک سے متاثر ہو کر واپس آگیا- وہ خلائ منصوبے پر کام کر رہا تھا جہاں زمین کی گردش کو قابو کر کے موسموں پر نظر رکھنا مقصد تھا- نوجوان کا اصل مقصد دنیا کو بجلی کی جگہ روشنی کا نیا نظام دینا تھا-وہ باہر ملک سے اپنی ساری دولت ملک میں لے آیا اور اپنا ذاتی خلائ ادارہ بنایا- اس نے کئ لوگوں کو نوکری دی اور اپنے تجربات کرنے لگا- اس نے عوام کو خلائ دور بینوں کی مدد سے ستاروں اور سیاروں کی گردش جا نچنے کی ترغیب دی- اِسی کو اپنے خلائ مشاہدوں کے دوران ایک نۓ ستارے کا پتہ چلا جو کہ سورج کی نسبت کم روشن تھا لیکن زمین والوں کو چوبیس گھنٹے روشنی دے سکتا تھا- یہ ستارہ صدیوں  سے وہاں موجود تھا لیکن سورج کی روشنی کی وجہ سے نظروں سے اوجھل تھا- اس ستارے کی ایجاد ہی شاید وہ معجزہ تھا جس کا ہاشم منتظر تھا- وہ تو زمین سے سونے کی کانوں اور تیل کے کنووؤں کے ملنے کی دعا کرتا تھا لیکن یہ سب تو اسے آسمان سے مل گیا تھا- اس ستارے کا نام "ہاشم ستارہ" رکھا گیا-جلد ہی ملک کی بجلی، ایندھن اور دوسری ضروریات ہاشم ستارے سے ملنے والی روشنی پر منتقل ہونے لگیں-


ہاشم کا جذبہ اور اس کے لوگوں کی ترقی دنیا کے امیر ملکوں کو ایک آنکھ نہ بھائ- وہ اب ہاشم کے ملک پر نئ نئ پانبدیاں لگانے لگے اور بر طریقے سے اس کے ملک کی ایجادات کو دنیا کے لۓ خطرہ قرار دینے لگے- حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اب ہاشم یا اس کے ملک کی عوام کو ان پانبدیوں کی کوئ پرواہ نہیں تھی بلکہ انھوں نے تو اپنی تحریک میں دوسرے غریب ملکوں کو بھی شامل کرلیا تھا اور ہر لمحہ آگے بڑھ رہے تھ-

سب لوگوں کا خیال تھا کہ کچھ عرصہ کا جوش ہے پھر سب ویسے ہی ہو جاۓ گا لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا لوگوں کا جزبہ بڑھتا گیا- اس تحریک کو شروع ہوۓ ایک سال ہونے کو تھا- اب ہر سکول میں آدھا وقت پڑھائ ہوتی تھی اور آدھا وقت "کچھ نیا کرو" کی تحریک کے لۓ تجربات ہوتے تھے- فیکٹریوں، دکانوں اور حتیٰ کہ ہسپتالوں میں بھی "کچھ نیا کرو" کے لۓ وقت مقرر ہو گیا اور کچھ نیا نہ کرنے والے کو بغیر نوٹس کے نوکری سے نکال دیا جاتا- آہستہ آہستہ باہر کی کمپنیاں بھی اس تحریک میں حصہ لینے لگیں لیکن ان کے لۓ سخت قوانین بناۓ گۓ- یہی کہ ایجاد بالک نئ ہو اور اس کا فارمولا حکومت کی اجازت کے بغیر کسی کو نہ دیا جاۓ-  ہاشم نے نہ تو کسی باہر کی کمپنی کی مصنوعات کا بائکاٹ کیا اور نہ ہی نئ ایجادات کے لۓ کسی کی مدد مانگی – آہستہ آہستہ کئ ایسی ایجادات اور مصنوعات بنیں کہ دنیا بھر میں اس کی مانگ ہو گئ-

ہاشم درست تھا اس کے ملک کے لوگ محنتی بھی تھے اور ذہین بھی لیکن وہ ایک بے منزل صحرا میں بھٹک رہے تھے- ہاشم نے انھیں ترقی کی سڑک پر ڈال دیا تھا- پورا ملک جیسے مصروف ہو گیا- اب کسی کے پاس ٹی وی دیکھنے، گپیں مارنے کا وقت نہیں تھا- روزانہ ہی لوگ اپنی عجیب و غریب ایجادات کے ساتھ سامنے آنے لگے- لوگ کچھ بنانا چاہتے اور کچھ اور ہی چیز بن جاتی- بہت سے لوگوں نے اپنے پراجیکٹ ادھورے چھوڑ دیتے تو کوئ اور اس پر کام شروع کر دیتا- لوگ اب کتابیں صرف یاد کرنےاور انٹر نیٹ تفریح کے لۓ استعمال نہیں کر رہے تھے بلکہ ہر کوئ کچھ نہ کچھ بنا کر اپنے ساتھیوں بلکہ دنیا کو حیران 

کر دینے کی دھن میں لگا تھا

نئ کہانیاں لکھی جانے لگیں- نئ شاعری، نیا ادب، جذبات کو جوش دینے والےنۓ مقرر ین نے تو کام کرنے والوں نیا حوصلہ دیا- اب ٹی وی، کمپیوٹر پر نئ کتابیں  لکھنے والوں کے انٹرویو چلنے لگےنئ ایجادات اور نیا کام کرنے والوں کو سراہا جانے لگا- ا -

ایک رات جب ایک خاتون اپنی نئ طرح کے "عائشہ روبوٹک لمبے ہاتھ" جو گھر کا چھوٹا موٹا کام

 ٹی وی لاؑنج میں بیٹھے ہی کر دیں کا تجربہ کرنے کے بعد اپنے بچوں کے کمرے میں انھیں سونے کا کہنے آئ تو اسے ایک لمحے کو ایسا لگا جیسے کھڑکی کے باہر شام کا وقت ہو-

'دیکھیں ہم بھی ایک ایجاد کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ہم ایک جگہ پر دن کے کسی بھی وقت کو روک سکتے ہیں- اس طرح  دیکھیں ابھی تو شام ہے اور ہم بالکل نہیں سو رہے،' اس کے بچوں نے پر جوش ہر کر اسے بتایا- یہ تھا ہاشم کا ترقی کا راز جسے اس کے ملک کے پر بچے سے لیکر بوڑھے تک سب نے پا لیا تھا-


ہاشم کی حکومت کے پانچ سال مکمل ہونے والے تھے- اس دوران نہ تو اس نے پچھلی حکومتوں کو معاملات کی خرابی کا قصوروار ٹھہرایا تھا اور نہ ہی اگلی حکومت حا صل کرنےکے لۓ چال بازیاں کی تھیں- وہ مطمئین تھا کہ اس نے اپنے ملک کے لوگوں کو ترقی کے سفر پر ڈال  دیا تھا اور یہ سفر اب صرف اوپر لے کر جاۓ گا جہاں واپسی کا تصور بھی نہ ہو گا-- آج وہ عوام سے خطاب کرنے آیا تو پورا ملک اس کو سننے کے لۓ امڈ آیا-


'پیارے ہم وطنو! آج میں آپ کو بتاؤں گا ان گمنام دنوں کی کہانی جب میں لاپتہ تھا اور ترقی کے راز کو جاننے کے لۓ جنگل اور بیابان چھان رہا تھا- میں کئ روز تک بھوکا پیاسا چلتا رہا یہاں تک کہ ایک جگہ بے ہوش ہو کر گر گیا-۔۔۔۔،' ہاشم  رکا-لوگ بے چین ہو گۓ-وہ اپنے صدر کی کہانی سننے کو بے چین تھے-

 'میرے گرنے کی دیر تھی کہ چیلیں اور کوے آسمان پر منڈلانے لگے کہ کب میں مروں اور وہ دعوت اڑئیں- کسی مرتے کا احساس ہوتے ہی ایک ریچھ ادھر آنکلا او مجھے سونگھنے لگا- ابھی وہ مجھے چیرنے پھاڑنے ہی کو تھا کہ ایک شیر نے مجھے اس کی گرفت سے چھڑا لیا اور اپنا شکار بنا لیا- وہ مجھے نیم بے ہوشی کی حالت میں گھسیٹ کر ایک طرف لے کر جارہا تھا کہ ایک موٹے تازے بے خبرہرن کو قریب دیکھ کر مجھے وہیں چھوڑ کر اس کے پیچھے بھاگا- شاید اس کا خیال ہو کہ میں تو وہیں ادھ موا پڑا رہوں گااور یہ سچ بھی تھا- اس عرصے میں میں نے ایک دفعہ بھی اپنے آپ کو چھڑوانے کی کوشش نہیں کی تھی اور نہ ہی بھاگن کی۔۔۔۔ کیونکہ یہ ناممکن تھا- میں کوشش بھی کرتا تو فائدہ نہیں تھا۔۔۔ میرے خیال میں،' ہاشم مسکرانے لگا-

' چیلیں اور کوے اب بھی میرے اوپر منڈلا رہے تھے میں کلمہ شہادت پڑھ رہا تھا کہ  کہ اچانے ایک بوڑھا بندر وہاں آنکلا- اس نے مجھے گھسیٹ ایک 

آبشار کے پاس پہنچا دیا-   


'اچھا تو تم انسان کی ترقی کا راز کھوجاننے نکلے ہو' میری حالت سنبھلنے پر وہ بولا-

'کیا تم بول سکتے ہو؟' میں نے حیران ہو کر پوچھا-

'میں تو ہمیشہ سے بولتا ہوں- اہم بات یہ ہے کہ تم مجھے سمجھ سکتے ہو،' بوڑھا 

بندر سکون سے بولا

'لیکن۔۔۔۔' میں اب بھی حیرت میں تھا

'یہ کیسے ممکن ہے؟

'جب تک انسان یہ کہتا اور سمجھتا رہتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔۔ یہ تو ہو ہو نہیں سکتا۔۔۔ وغعرہ وغیرہ تب تک وہ ترقی نہیں کر سکتا میرے دوست- تمہارا ملک بھی ترقی نہیں کر سکتا جب تک تم اور تمہارے لوگ ناممکن کو ممکن کرنے کے لئ نہ جت جاؤ۔۔۔۔،'

'نہیں میرا یہ مطلب نہیں تھا۔۔۔۔مطلب یہ کہ تم کیسے جانتے ہو کہ میں کون ہوں اور۔۔۔

میں'

نے پچھلے دنوں تمہاری گمشدگی کی خبر ٹی وی پر دیکھی تھی- بھئ مجھے تو بہت ہی ہنسی آئ تم پر،' بندر ایک پتھر پر ٹنگ پہ ٹانگ رکھ کر بیٹھ گیا-ا

-مطلب ایک انسان ترقی کا راز پوچھ رہا ہے ۔۔۔۔ حیرت ہے، بندر ہنستا رہا'

آپ لوگوں کو اندازہ تو ہو گا میں تو اب تک بندر کے بولنے پر حیران تھا۔۔۔ نہیں میرا مطلب کہ اس کی باتوں کو سمجھنے پر حیران تھا کہ اب وہ مجھ پہ ہنس رہا تھا تو مجھے کافی غصہ آیا،' ہاشم نے کہانی جاری رکھتے ہوۓ بتایا-

'اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے؟ '


'ہنسنے کی بات تو ہے- آج کے دور میں تو زور زور سے ہنسنے کی بات ہے- کیا تم نے غور نہیں کیا کہ جو ملک آج ترقی یافتہ ہیں وہ کتنی نئ چیزوں کے موجد ہیں- ان کی ایجادات نے دنیا کو کیا سے کیا بنا دیا ہے- انھوں نے بھی یہ سفر چند سال پہلے شروع کیا تھا-۔۔۔۔انسان کی ترقی کا راز یہ ہے کہ وہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ نیا کرنے کی جستجو میں

 لگا رہتا ہے- وہ اپنے دماغ میں آنے والے ہر خیال کو اصل کرنا چاہتا ہے اور اس کے لۓ کوشش کرتا ہے- جس قوم کے لوگ کچھ نیا بنانا، نیا سوچنا چھوڑ دیتے ہیں وہ پیچھے رہ جاتی ہے- اس کی زندگی بالکل  ہم جانوروں جیسی ہوتی ہے جو آج تک بس کھانے کے لۓ اور کھاۓ جانے کے لۓ پیدا ہوتے ہیں،' بوڑھا بندر ایک پتھر پر بیٹھ کر کیلا کھاتے ہوۓ بولا-

'معاف کرنا۔۔۔ ہو سکتا ہے کہ تمہاری نیت نیک ہو اور تم واقعی اپنے ملک کے لۓ کچھ کرنا چاہتے ہو لیکن میرے مطابق تم بھی ایک اچھے حکمران نہیں۔۔۔ تمہارا یقین اب بھی پکا نیں کہ تم کچھ کر سکتے ہو- ایک جانور کو بولتے دیکھ کر حیران ہو جب کہ تم جیسے انسان کیا کچھ نہیں کر چکے۔۔۔،'


اس پوڑھے بندر کی بات نے مجھے شرمندہ کر دیا- میں کچھ بولنے ہی والا تھا کہ بندر نے دوبارہ بات شروع کی-


'کئ سال پہلے تمہاری طرح کا ایک سر پھرا نوجوان اس جنگل میں کچھ مشینیں لے کر آیا تھا- وہ جانوروں کی آوازیں سمجھنا چاہتا تھا- اس نے ہم پر کئ تجربات کۓ - وہ سالوں تک یہاں رہا- وہ ہماری آواز مشینوں پر ریکارڈ کرتا۔۔۔۔ کبی ہماری زبان کے نیچے کوئ چپ لگا دیتا، کبھی کان میں۔۔۔ میرے تو کانوں، گلے اور ناک میں اس  

تاریں لگا دیں۔ اس دن وہ بہت خوش تھا کیونکہ وہ میری زبان سمجھ پا رہا تھا-

میں کچھ ایسا کرنا چاہتا تھا جو آج تک کوئ نہ کر سکا ہو' وہ خوشی سے اچھل رہا تھا-

 لیکن میں شدید غصے میں تھا- میں نے موقع ملتے ہی اس کو اس آبشار میں دھکا دے دیا- نیچے چٹانوں سے ٹکرا کر وہ جان کی بازی ہار گیا- یہاں کے جانور کئ راز تک اس کے گوشت سے دعوت اڑاتے رہے- چند دن بعد میں شہر کی طرف گیا تو ٹی وی پر اس نوجوان کے بارے میں رپورٹ دیکھی- اس نے اپنی زندگی جانوروں کی فلاح و بہبود کے لۓ وقف کی ہوئ تھی- وہ جانوروں کا ڈاکٹر اور ان  کے حقوق کے لۓ کام کرنے والے ادارے کا اہم رکن تھا اور یہ تجربے بھی اسی کوشش کی ایک کڑی تھے-  وہ جانوروں کی زبان سمجھ کران 

-کے لۓ ایک ہسپتال بنانا چاہتا تھا


اس کے مرنے کے بعد میں نے جا نا کہ ہمارے ساتھ سفر شروع کرنے والے چند انسان ہم سے آگے کیسے پہنچ گۓ کیونکہ بہت سے تو اب بھی ہماری جیسے زندگی گزار رہے ہیں۔۔۔ وہ سب کچھ ایسا کرتے رہے جس سے اس دنیا کے رہنےوالوں کو آسانی ہو- وہ اپنی سوچ کو دماغ کے بند کمروں سے نکال کر حقیقت بنانے کی جستجو کرتے رہے- اگر کسی کا کام ادھورا رہ گیا تو اس کے بعد آنے والے نے اسے پورا کر دیا-  جاؤ کچھ ایسا کرو جو پہلے کسی نہ کیا ہو۔۔۔۔کچھ ایسا جس سے سب کو فائدہ ہو۔۔۔۔ اپن دماغ کی گرہیں کھولو اور خیالوں کو حقیقت کرو۔۔۔ سب سے پہلے تمہیں اس پر یقین کرنا ہوگا تب ہی تمہاری قوم اس پر عمل کرے گی۔۔۔۔،

اس طرح ترقی کا یہ راز پا کر اپنے ملک لوٹ آیا اور ہماری ترقی کا سفر شروع ہو گیا-'

 لیکن وہ بولنے والا بندراب کہاں ہے۔۔۔۔؟ کیا وہ زندہ ہے۔۔۔۔کیا اب ہم بندر 

کے مشوروں پر چلیں گے؟ سوال تھے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے

'

کام کی بات تو کسی کی بھی دل کو لگ جاتی ہے- رہا وہ بندر تو آج میں جانوروں کے ہسپتال اور ریرچ سنٹر کا افتتاح کر رہا ہوں اور امید ہے کہ اگر وہ بندر ہمیں ٹی وٰ پر دیکھ رہا ھے تو ہمیں ضرور جوائن کرے گاکیونکہ اب ہم کئ جانوروں کی زبان سمجبھنے کے قابل ہیں- صرف یہی نہیں کئ جانور تو ہمیں زمین کے نیچے کی دنیا کے کئ راز بتا چکے ہیں جو ہماری کھوج میں بہت فائدہ مند ہوں گے،' 

'آخر میں نے بھی تو کچھ نیا کرنا تھا نہ

ہاشم  نے سب کوحیران چھوڑ کرتقریر ختم کی اور مسکراتے ہوۓ آگے بڑھ گیا-

  

 

Advertisement