اردو شاعری
صائمہ ندیم
زندگی کی کتاب میں کٸ باب ہیں
ہر باب میں کہانیاں بے نصاب ہی
ہر کہانی میں ملےنۓکردار ہیں
اداکاروں کے روپ بے حساب ہیں
کچھ پایا لیا کچھ پا نہ سکے
کچھ پورے ، کچھ ادھورے خواب ہیں
کیسے کہانی سے کہانی بنتی گ
حیرت زدہ قلم کے گزرے شباب ہیںعمر کے ساتھ تقاضے بدلتے رہے
کبھی کےسورج، أج کے ماہتاب ہیں
سنجیدہ رہی زیادہ یہ زندگی
ملے بس کچھ مزاحیہ جذبات ہیں
کوٸ ہاتھ پکڑ کر پار لگا گیا
کسی نے گراۓ پُل دن رات ہیں
زیادہ دعاٶں نے، کچھ عمل نے
بچاۓ عزتوں کے جو بھی باب ہیں
کبھی دل دُکھا ، کبھی دُکھا دیا
فرشتہ ہونے کے دعوے بے بنیاد ہیں
اک مسلسل کوشش رہی زندگی
ٹھہرے کہیں تو معاملات خراب ہیں
روشنی کی طرح چمکتے آج بھی
یادوں میں کچھ لوگ لاجواب ہیں
تکلیف نہ ہوٸ جو اترے نقاب
حقیقتیں تو اب بھی حرف راز ہیں
جھوٹوں کی ریاست کے دھانے
سچ کو دباۓ کھڑے کٸ محراب ہیں
یہ وقت بھی گز جاۓ گا
مشکل نے سیکھاۓ نۓ انداذ ہیں
بچپن ، جوانی اور بڑھاپا
ہر چہرے پہ نقش یہ اوراق ہیں
ہوا وہی جو رب نے چاہا
قسمت کے کھیل عجیب سراب ہیں
غم کو خوشی میں پی گۓ
ہم تو جیسے زندگی کے نواب ہیں
تھے جو دل کے قریب رخصت ہوۓ
اب قریب اس کتاب کے آخری الفاظ ہیں