Advertisement

Saturday, 2 April 2022

لوگ جو سوچتے ہیں وہ بولتے ہیں پھر جو بولتے ہیں کیا وہ سوچتے ہیں -نظم صائمہ ندیم

 

لوگ جو سوچتے ہیں وہ بولتے ہیں
پھر جو بولتے ہیں کیا وہ سوچتے ہیں

ایک نظم

لوگ جو سوچتے ہیں وہ بولتے ہیں
پھر جو بولتے ہیں کیا وہ سوچتے ہیں

سچ کے پاٶں تلے سے کھینچ کر زمیں
دھواں جھوٹ کا بے دھڑک چھوڑتے ہیں

سمجھیں سب کو پاگل یا بے عقل
اس طرح سیدھی بات کو مڑورتے ہیں

لفظ کے تیر کمان سے نکل گۓ
اب کیا تماشا دیکھنے کو روکتے ہیں

عمل کا ردعمل برابر اور بروقت
بے فائدہ الزام دوسروں پر تھوپتے ہیں

ڈھونڈ کر نۓ الفا ظ دل جلانے کو
اپنی اپنی تہہ کے پرت یوں ٹٹولتے ہیں

جب نہ ملے دلیل نہ ہی منطق تو
گالیوں کے سہارے پھر زبان کھولتے ہیں

سمجھیں خود کو بقراط کے استاد
بے وزن گفتگو کے پر پرزے تولتے ہیں

زبان کی گرہیں ہاتھوں سے نہ کھلیں
تلخ لہجے،سسکتے لفظ کب بھولتے ہیں

سوچ کر بولو پھر بول کر ٹھہرو
کہ گونج کے پرندے سر راہ لوٹتے ہیں

اپنی کہی باتیں ہی سامنے ناچیں
گدھ اس طرح مکافات عمل نوچتے ہیں

سوچ کر کہانیاں  بنا کر نۓ بہروپ
آنکھوں دیکھی حقیقت کو ٹوکتے ہیں

لوگ جو سوچتے ہیں وہ بولتے ہیں
پھر جو بولتے ہیں کیا وہ سوچتے ہیں

صائمہ ندیم

Urdu poetry by Saima Nadeem
Urdu poetry by Saima Nadeem







Advertisement