اور جب بھڑ نے کاٹ لیا
وانیہ اور آمنہ کی کہانیاں۔
مصنفہ :صاٸمہ ندیم
گرمیوں کی ایک اور لمبی اور بورنگ شام تھی۔ اما کی ایک ہی رٹ کہ پڑھ لو۔۔۔ پڑھ لو سن سن کر کان پک گۓ تھے۔ ٹی وی موباٸل یا کمپیوٹر سب بورنگ لگ رہا تھا۔ اس شام گلی میں بھی کوٸ کھیلنے نہیں آیا۔ اس لۓ ضد کرکے باہر بھی نہیں جاسکتے تھے۔
”چلو صحن میں جا کر پودوں کو پانی دو اور کچھ تازہ ہوا میں سانس لو،“امی نے حکم دیا۔
وانیہ اور آمنہ صحن میں آگٸیں۔ وانیہ نے ٹوٹی کھولی اور آمنہ پاٸپ سے پودوں کو پانی دینے لگی۔ اس نے شرارت سے پانی وانیہ پر پھینکا۔ وانیہ کو غصہ آیا اور اس نے پاٸپ لے کر آمنہ کو پورا ہی نہا دیا۔ اب وہاں پانی سے لڑاٸ ہورہی تھی ۔ آمنہ اپنے آپ کو بچانے اے سی کے باہر والے یونٹ کی طرف بھاگی او وہاں سے وانیہ پر پانی پھینکا۔ وانیہ نے بھی بدلہ لیا اور جلدی سے اپنی ساٸیکل کے پیچھے چھپ گٸ۔
ماما اندر کچن میں ان دونوں کے لۓ کچھ اسنیکس بنا رہی تھیں اور ساتھ ساتھ انھیں شرارت کرنے سے منع کر رہی تھیں۔ ابھی تو ان دونو ں کے ہنسنے کی آوازیں آرہی تھیں کہ اچانک وانیہ کے زور سے چیخنے اور رونے کی آواز آٸ۔
”مجھے بھڑ نے کاٹ لیا۔۔۔،“وہ پریشان اونچی آواز میں روتی اندر آٸ۔ اس نے اپنے ہاتھ کو زور سے پکڑا ہوا تھا۔ سا ٸیکل کر پہیوں کے اندر بھڑوں کا چھتہ تھا۔ جس میں سے ایک بھڑ نے وانیہ کو کاٹ لیا تھا۔
”اچھا کوٸ بات نہیں۔۔ رکو میں کوٸ لوہے کی چیز ڈھونڈتی ہوں،“ امی نے اسے تسلی دی اور جلدی سے ایک تالا لا کر اس کی انگلی پر رگڑا ت جہاں بھڑ نے کاٹا تھا۔
”اس سے بھڑ کا ڈنگ نکل جاۓ گا اور درد کم ہو جاۓ گا،“ امی نے بتایا لیکن وانیہ کا رونا اور چیخنا کم نہیں ہو رہا تھا۔
اب ماما کو غصہ آرہا تھا۔
”کیا ہو گیا ہے ایک بھڑ نے ہی تو کاٹا ہے۔ ہمیں تو
۔۔۔،“ ماما اپنے بچپن کی ایک بہادر کہانی سنانے لگیں تو وانیہ نے روتے روتے ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔
”چھوڑیں مجھے۔۔۔ اور جاٸیں یہاں سے۔۔۔ ہاۓ۔۔۔،”
”اچھا رکو میں برف کی ٹکور کرتی ہوں۔ اس سے آرام آۓ گا،“ ماما پریشان ہوتے بولیں۔ برف کی ٹکور سے بھی کوٸ فرق نہیں پڑا تھا۔ تھوڑی دیر بعد وانیہ کا ہاتھ بری طرح سوج گیا تھا۔ انگلیاں پھول گٸیں تھیں اور اسے شدید درد ہو رہا تھا۔ ماما نے اسے درد کی دواٸ پلاٸ اور تسلی دی کہ برداشت کرو، صبح تک دردٹھیک ہو جاۓ گا۔ وانیہ درد اور خارش کی وجہ سے ساری رات نہ سو سکی۔ اگلی صبح بھی اس کا ہاتھ ایسے ہی سوجا ہوا تھا بلکہ انگلیاں سوج کر ٹیڑھی ہو گٸیں تھیں۔ آخر ماما اسے قریبی کلینک پر لے گٸیں جہاں اسے
اینٹی الرجی کا انجیکشن لگا۔
”کچھ لوگ بھڑ کے ڈنگ سے الرجک ہوتے ہیں۔ ان کو بھڑ یا کسی بھی کیڑے کے کاٹنے کا بہت زیادہ برا اثر ہوتا ہے۔ اس کو مکمل ٹھیک ہونے میں پانچ سے سات دن بھی لگ سکتے ہیں،“ ڈاکٹر نے بتایا۔
باقی سب تو ٹھیک تھا لیکن آمنہ کو وانیہ کے لۓ ماما اور بابا کی اتنی زیادہ توجہ برداشت نہیں ہورہی تھی۔ آخر وہ بھی تو صبح سے سب کو بازو پر پڑے دو نشان دکھا رہی تھی کہ اسے بھی بھڑ نے کاٹا ہے لیکن کوٸ توجہ ہی نہیں دے رہا تھا۔ اس نے رگڑ رگڑ کر بازو لال کر دیا پھر بھی ماما نے نہیں دیکھا اور نہ ہی ڈاکٹر کو دکھایا۔ اسے سخت غصہ آرہا تھا۔ آخر تنگ آکر وہ وانیہ کے پاس آکر بیٹھ گٸ۔ وانیہ جیسے ہی آ۔۔آ کرتی تو آمنہ بھی ویسے ہی آ۔۔۔کرتی۔ وانیہ سے کوٸ چیز نہ اٹھاٸ جاتی تو آمنہ بھی اسے ہاتھ سے گرا دیتی۔
”بند کرو ڈرامے۔۔۔ میری نقل نہ کرو،“ وانیہ کو غصہ آگیا۔
”میں نقل نہیں کر رہی،“ آمنہ چیخی۔
”وانیہ بس کرو ۔چھوٹی بہن کو اصل میں درد ہو رہی ہے۔ آٶ میں آپ دونو ں کے ہاتھ اور بازو پر برف کی ٹکور کردوں،“ماما نے وانیہ کو اشارہ کرتے ہوۓ کہا۔ انھوں نے آمنہ کا بازو پکڑ کر اسے پیار کیا اور درد کی تھوڑی سی دوا بھی پلاٸ۔ ماما کافی دیر اس کے باز و پر ٹکور کرتی رہیں۔ اس دوران آمنہ بہت سنجیدہ ہو کر وانیہ کو دیکھ رہی تھی ۔ وانیہ کو سخت غصہ آرہا تھا کہ یہ چھوٹے بہن بھاٸ بھی کتنے ڈرامے باز ہوتے ہیں اور بڑے بہن بھا ٸیوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔
بابا نے اگلے ہی دن بھڑوں کے چھتے کو جلا کر ختم کروادیا اور تاکید کی کہ بھڑوں کے چھتے کی آس پاس کی جگہ نہ کھیلا جاۓ۔ خیر وانیہ کے ہاتھ کو ٹھیک ہونے میں ایک ہفتہ لگ گیا بس یہ کہ دونوں بہنوں نے اس دوران چھٹیوں کا کوٸ کام نہ کیا۔
وہ اونچی آ
اب تو ہر وقت موباٸل پر کھیل کھیل کر درد کر رہی تھی