Advertisement

Friday 1 July 2022

موسم کا شہزادہ۔ اردو کہانی بچوں کے لۓ

  

موسم کا شہزادہ

ایک دلفریب ہوا نے پورے باغ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور پرندے خوشی سے چہچہانے لگے۔ ہر ٗطرف رونق چھا گٸ۔ چاروں طرف پرندوں کی صدا سناٸ دے رہی تھی۔ یہ تبدیلی سدا سے قدرت کا نظام تھی  ۔سوکھے میدان میں سبزہ بچھنے لگا۔ پھولوں کی کلیاں چٹخنے لگیں۔ درختوں نے بھی نۓ پتوں کا لباس پہن لیا ۔ یہ سب تیاری عام نہیں تھی۔ یہ تو موسم کے شہزادے کے استقبال کے لۓ ہورہی تھی جو ہر سال موسم بہار کے شروع ہوتے ہی باغ کی سیر کو آتا تھا۔اس باغ میں آم، آڑو، انار اور دوسرے پھلوں کے بکثرت درخت تھے جو شہزادے کے آتے ہی پھولوں سے بھر جاتے تھے۔  موسم کا شہزادہ بہت بہادر اور عقل مند تھا۔ اسے سات براعظموں میں گھومنا اور دنیا کے بارے میں جاننا بہت پسند تھا لیکن اسے اس باغ سے خاص لگاٶ تھا۔ اس لۓ وہ موسم بہار یہیں گزارتا تھا۔  یہی اس کا  پسندیدہ موسم بھی تھا۔ شہزادہ صبح کے وقت باغ کے بڑے دروازے پرپہنچ گیا تھا۔ افق پر ابھرتے سورج نے اسے سلامی دی تھی۔ شہزادہ ایک سرد ملک سے طویل سفر کرکے یہاں پہنچا تھا۔ اب وہ پھولوں کے بستر پر آرام کرنا چاہتا تھا لیکن اسے کچھ عجیب محسوس ہورہا تھا۔ اس کا دم گھٹ رہا تھا اور اس کے اردگرد کبھی شدید گرمی، کبھی سردی  اور کبھی خزاں کا موسم بن رہا تھا۔ برف باری، لو، بارش، پھول اور زرد پتے ایک دوسرے کو مات دینے کے لۓ آمنے سامنے آگۓ تھے۔ موسم کا شہزادہ موسموں کو پریشان محسوس کر رہا تھا کہ اچانک سارے موسم ایک دوسرے سے لڑنے لگے اور وہاں طوفان آگیا۔شہزادے نے جلدی سے باغ میں داخل ہونے کی کوشش کی لیکن اس کا گھوڑا باغ کے دروازے پر پہنچ کر ہنہنایا جیسے کوٸ خطرہ ہو۔ باوجود کوشش کے وہ ٹس سے مس نہیں ہورہا تھا۔ آخر موسم کا شہزادہ  نے اپنی تلوار نکالی اور آہستہ سے باغ میں داخل ہوا۔ وہاں عجیب منظر تھا۔ سامنے ہی ایک اونچے مقام پر ہوا کی شہزادی قید تھی۔  اس کو ایک درخت کے ساتھ رسیوں سے باندھا گیا تھا۔ وہ ہر سال کی طرح شہزادے کا استقبال کرنے وہاں آٸ تھی۔  

ایک بڑے سے پنجرے میں برف کا بادشاہ قید تھا شہزادہ ساری صورتحال سمجھ گیا تھا۔ کوٸ قدرت کے نظام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کررہا تھا۔ اس کی سلطنت کا شیرازہ بکھر رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ اسے بھی قید کرلیا جاتا اسے پہاڑوں کے جن سردار سے مقابلہ کرنا تھا اور وہ اس کے لۓ تیار تھا۔ اس نے اپنی تلوار سیدھی کی اور پاس ہی جھاڑیوں کے پیچھے چھپ گیا۔ اسے یقین تھا کہ پہاڑوں کا جن سردار کچھ دیر میں وہاں آۓ گا۔ ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کہ اچانک زوردار بارش شروع ہو گٸ اور باغ میں پانی کسی سیلاب کی طرح اونچا ہونے لگا۔ شہزادے کے چاروں طرف کیچڑ بن گیا اور اچانک کہیں سے ایک بڑا خوفناک سانپ نکل آیا۔ اس سے پہلے کہ شہزادہ تیار ہوتا۔ سانپ نے اسے جکڑ کر اوپر اٹھا لیا۔ وہ سانپ شہزادے کو آسمان کی بلندی تک لے گیا۔

۔”تو آخر موسم کا شہزادہ بھی آگیا۔ اب موسم بدلنے کے سارے ساتھی میرے قبضے میں ہیں۔ اب میں بنوں گا پوری دنیا کا سردار۔“ کے ٹو پہاڑ کی سب سے اونچی چوٹی پر اپنا تخت لگاۓ ایک ہیبت ناک اور   جابر پتھریلے سردار نے شہزادے کو نخوت سے دیکھ کر قہقہہ لگایا۔

”میرے جیتے جی تمہارا یہ خواب کبھی پورا نہ ہوگا۔ میں تمہیں موسوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑنہیں کرنے دوں گا،“

شہزادے کی بات سن کر پہاڑوں کے سردار نے غصے سے اپنا پتھریلا پاٶں زمین پر مارا تو زلزلہ آگیا۔ برف کے تودے زمین کی طرف بڑھنے لگے۔ سورج کی حدت تیز ہو گٸ اور برف پانی بن کر دریاٶں میں بہنے لگی۔ دنیا میں بے موسم کی بارش اور سیلاب کے سا ٸرن بجنے لگے۔ 

”رک جاٶ۔ تم کیا چاہتے ہو،“ موسم کے شہزادے نے بے بسی سے پوچھا۔

۔”ہمالیہ کی ان بلند ترین چوٹیوں کے نیچے بہتے ایک خفیہ دریا کا پتہ چاہیۓ۔ اس کے پانی سے مجھے لازوال طاقت ملے گی اور میں پوری دنیا کو اپنا غلام بنالوں گا۔ دنیا کے انسانی بادشاہ بھی میرے پاٶں پکڑ کر رحم کی بھیک مانگیں گے،“ 

”میں ایسا کبھی نہیں کروںگا چاہے تم میری جان لے لو،“ شہزادے نے اپنے آپ کو اس پھن دار سانپ سے چھڑانے کی کوشش کی لیکن سانپ اسے اور زورسے جکڑ رہا تھا اور شہزادے کا سانس گھٹ رہا تھا۔

۔”خفیہ دریا کا پتہ تو تم مجھے دو گے۔۔۔ ضرور دو گے،“ پہاڑوں کا سردار غضب ناک ہو کر بولا۔ 

اور اس کے ساتھ ہی سانپ نے شہزادے کو زور سے باغ میں پٹخ دیا۔ شہزادے کو شدید چوٹیں آٸیں لیکن اجڑے ہوۓ باغ کودیکھ کر اس نے ہمت کی اور پہاڑوں کے سردار سے مقابلے کا فیصلہ کیا۔ اس نے اپنے لباس میں چھپی طلسماتی انگوٹھی نکالی اور پہن لی۔ باغ میں موجود لوہے کے برتن سے ایک ڈبہ بنایا۔ ایک درخت کی سوکھی ٹہنیوں سے قلم بنایا اور اپنی طلسماتی انگوٹھی کے نگ میں چھپی طلسماتی سیاہی سے ڈبے پر کچھ الفاظ لکھے۔ شہزادے نے وہ ڈبہ ہوا کی شہزادی کے پاس رکھ دیا۔  اب ہوا کی شہزادی اپنی قید سے آزاد ہو رہی تھی کہ پہاڑوں کا سردار وہاں پہنچ گیا۔

۔”بہت خوب۔۔۔ میں جانتا تھا کہ تم کچھ ایسا ہی کرو گے اس لۓ تو میں نے اب ہوا کی شہزادی کو اپنی ملکہ بنانے  کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر تم اسے بچانا چاہتے ہو تو خفیہ دریا کا پتہ دے دو“ پہاڑوں کے سردار نے اعلان کیااور شہزادی کو ہوا میں معلق کردیا۔ 

”یہ کبھی نہیں ہوگا۔ میں تم سے جنگ کروں گا اور میرے سپاہی تمہیں نیست و نابود کردیں گے،“ شہزادے کی بات سنتے ہی باغ کے سارے درخت جیسے جاگ گۓ اور برف کے بادشاہ کو رہا کروا لیا۔یہ سب شہزاے کی طلسماتی انگوٹھی کو کمال تھا۔ 

پہاڑوں کے سردار نے غصے میں آکر نانگا پربت پہاڑ کی چوٹی کو اتنے زور سے پٹخا کہ ساری دنیا ہل گٸ۔ اس سے پہلے کہ کوٸ نقصان ہوتا شہزادہ ہوا کی شہزادی کی مدد سے نانگا پربت کی چوٹی پر پنچ گیا اور اسے ہلنے سے روک دیا۔ اب موسم کے شہزادے اور پہاڑوں کے سردار میں کھلم کھلا جنگ شروع ہو گٸ تھی۔ پہاڑوں کاسردار تمام پہاڑوں کو توڑ کر خفیہ دریا تک پہنچنا چاہتا اس لڑاٸ میں دنا کے کوگ ریشان تھے۔ کبھی دبٸ میں برف باری ہو رہیتھی تو نیو یارک میں شدید گرمی سے مٹی ریت بن رہی تھی۔ 

شہزادے نے اس پر کچھ الفاظ لکھے  

شہزادہ بہت مشکل سے اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور

ادھر دبٸ میں برف باری اور نیویارک میں شدید گرمی پر پر لوگ حیران و پریشان تھے۔ 



مشق

س۔ سال کے موسموں کے نام بتاٸیں؟

س ۔ موسم کے شہزادے کو کیا پسند تھا؟

س۔ دنیا میں کتنے براعظم ہیں؟

س۔ سارے موسم کیوں پریشان تھے؟

س۔ شہزادے نے باغ میں کیا دیکھا؟

س۔ اس تفہیم کا مرکزی خیال کیا ہے؟


س٢ ۔ 

تفہیم سے دو محاورات کو ڈھونڈ کر ان کے جملے بنایٸں؟

س٣۔

تفہیم سے دو ہم آواز الفاظ کے جوڑے ڈھونڈیں۔

س٤

ان الفاظ کے متضاد لکھیں

طویل۔ افق



Advertisement