قاسم اور طلسمات کی دنیا- اردو کہانی بچوں کے لۓ
مارگلہ کی پہاڑیوں کے اس حصے میں کچھ زیادہ ہی
ویرانی تھی- گہری ہوتی شام کے پیچھے اس بڑے سے غار کوچیڑ کے درختوں کے سر سبز جھنڈ
نے اپنے دامن میں چھپا رکھا تھا- غار کے
اندھیرےمنہ سے ایک منہ زور آبشارنکل کر نیچے کی طرف بہہ رہی تھی – غار سے کچھ اوپر
ایک قطار میں سرو کے قد آور درخت تھے جن میں سے ایک درخت کے نیچے ایک اونچی چٹان پر قاسم ایک ٹوٹے ہوۓ موبائل کے
تاروں میں الجھا ہوا تھا- اپنے بڑے بھائیوں کی مار،اور اپنے چھوٹے سے گھر کے شور
شرابے سے بچنے کے لۓ وہ اکثر ان پہاڑوں میں نکل آتا تھا اور چڑھتے چڑھتے اتنا اوپر
آجاتا کہ جہاں انسان تو کیا جانور بھی کم ہی نظر آتے- اسے وہاں کسی ہمالیین چیتے
یا بھونکنے والے ہرن کی آمد کی بجاۓ اس ویرانی میں بسیرا کرتے جن بھوتوں کا زیادہ
خیال آتا- اسے یقین تھا کہ یہاں آس پاس ایک اور دنیا موجود ہے لیکن وہ اس کی نظروں
سے اوجھل ہے- ویسے بھی اس کا دماغ اس کی عمر کے باقی بچوں کے مقابلے بہت تیز اور
ہوشیار تھا- آج وہ ایک پرانا موبائل ایک کباڑخانے سے خرید کر لایا تھا اور اب اسے
ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہا تھا- اس کا پالتو طوطا ونس اس کے آس پاس چکر لگا رہا
تھا- کبھی وہ اڑتا ہوا چیڑ کے درختوں کے پاس پہنچ جاتا اورچونچ مار کر اس کی ایک
کون کو نیچے گرا دیتا اور اسے آبشار کے پانی میں بہتا دیکھتا رہتا اور کبھی کسی
آہٹ سے سہم کر قاسم کے پاس آکر بیٹھ جاتا-
اس شام ہوا میں عجیب سی خنکی تھی- گرمیوں کا موسم ختم ہونے کو تھا لیکن ابھی تک خزاں کے کوئ آثار نہ تھے- مارگلہ کی پہاڑیوں کے نیچے واقع خوبصورت شہر اسلام آباد میں درختوں سےگرتے اور سرمئ سڑکوں پر ناچتےنارنجی اور لال پتوں کے میلے کو دیکھنے ساری دنیا کے سیاح امڈ آتے تھے-
قاسم ان
دنوں بازاروں میں مختلف چیزیں بیچ کر کچھ پیسے کماتا تھا- اس کا اپنے آٹھ بھائیوں
میں چھٹا نمبر تھا- اس کا باپ سرکاری دفتر میں چپڑاسی تھا اور گررنمنٹ سے ملے ہوۓ
دو کمروں کے کوارٹر میں اپنے آٹھ بچوں کے علاوہ ایک اور خاندان کو بھی کراۓ پر
رکھا ہوا تھا- وہ پانچ سال کا ہوتے ہی اپنے بچوں کو قریبی سرکاری سکول میں داخل
کروا دیتا اور اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہو جاتا- آگے اس کے بچے پڑھیں، پاس ہو کر
اگلی جماعت میں جائیں یا فیل ہو کر سکول چھوڑ دیں یہ اس کا سر درد نہیں تھا- قاسم
کےبڑے بھائیوں میں سے کوئ بھی پانچویں جماعت سے آگے نہ پڑھ سکا تھا- لیکن قاسم کے
تو جیسے دماغ میں کمپیوٹر لگا تھا- وہ جس کتاب کو ایک دفعہ پڑھ لیتا اسے یاد ہو
جاتی- ریاضی کے مضمون میں تو وہ جینئس تھا- حساب کے مشکل سوال پلک جھپکتے حل کر
لیتا تھا- اسے نہیں یاد تھا کہ نویں جماعت میں آنے تک حساب کے کسی پرچے میں کبھی
اس کا ایک نمبر بھی کم آیا تھا- اب وہ فارغ وقت میں موبائل اور لیپ ٹاپ ٹھیک کرتا
تھا اور کچھ پیسے کما لیتا تھا-
قاسم اب
اس ٹوٹے ہوۓ موبائل کو ہوا میں بلند کرکے موبائل سگنل ڈھونڈ رہا تھا- پہاڑوں کی اس
ویرانی میں بھی تمام بڑی مو بائل کمپنیوں نے اپنے کھمبے لگا رکھے تھے- اچانک قاسم کے موبائل میں کچھ روشنی دکھائ دی
اور پھر ایک زوردار چیخ نے سارے جنگل کو لرزا دیا- موبائل قاسم کے ہاتھوں سے نکل
کر کئ فٹ گہری آبشار میں جا گرا- قاسم بے چین ہو کر آبشار کے پاس پہنچا اور پانی
کے ساتھ چلنے لگا- اسے احساس ہی نہ ہو ا اور وہ چیڑ کے درختوں کے جھنڈ کو چیرتا اس
ویران غار کے دھانے پہنچ گیا تھا جہاں سے آبشار باہر آرہی تھی-
آبشار چٹانوں سے سر پٹختی اس غار کے سے باہر رہی
تھی- اس پراسرار جگہ پر پانی بہنے کا عجیب کربناک سا شور تھا جیسے کوئ تکلیف میں
ہو- قاسم آج سے پہلے کبھی اس طرف نہیں آیا تھا- اس نے ڈر کر وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی تو جیسے
کسی چیز نے اس کے پاؤں پکڑلۓ-
"مجھے چھوڑ دو۔۔۔ میں تمیں کوئ نقصان نہیں پہنچانا چاہتا۔۔۔ مجھے جانے
دو،' قاسم نے بند آنکھوں کے ساتھ پیچھے مڑے بغیر کسی ان دیکھی مخلوق سے التجا کی-
کچھ دیر تک وہاں کوئ جواب نہ پا کر اور اپنے طوطے ونس کی آواز سن کر اس نے ڈرتے
ڈرتے آنکھیں کھولیں اور نیچے دیکھا- اس کا پاؤں دلدلی جڑی بوٹیوں میں پھنسا ہوا
تھا- قاسم کو اپنی حالت پر ہنسی آگئ لیکن
ونس ابھی بھی بے اختیار چیخ رہا تھا جیسے وہ قاسم کو یہاں سے نکلنے کا کہہ رہا ہو-
"اچھا اچھا چلتے ہیں یہاں سے۔۔،' قاسم ونس کو تسلی دیتا نیچے ہو کر اپنا
پاؤں ان جڑی بوٹیوں سے ہٹانے ہی لگا تھا کہ ان جڑی بوٹیوں نے اس کے دونوں بازو بھی
پکڑ لۓ اور پلک جھپکتے ہی قاسم اور اس کے طوطے کو اٹھا کر غار کے اندر دھکیل دیا- ایک
اندھیرا غار، پانی کا منہ زور شور، فنگس اور کائ کی بو سے قاسم کا دم گھٹنے لگا-
وہ اپنے آپ کو چھڑانے کے لۓ مسلسل کوشش کر رہا تھا اور ساتھ ساتھ مجھے چھوڑ دو۔۔۔۔
مجھے چھوڑ دو کی رٹ لگاۓ ہوۓ تھا-
"اس تکلیف کے لۓ معافییی چاہتی ہوں ، لیکن ہمارے دنیا کو تمہاری مدد کی
ضرورت ہے اور اسی لۓ میں تمہیں لینے آئ ہوں،' اس اندھیرے میں ایک نسوانی آواز نے
جیسے قاسم کے اوسان خطا کر دیئے-
-"ت۔۔۔ت۔۔تم۔۔۔ کون ہو اور کیا چاہتی ہو؟ دیکھو، میں تمہاری کوئ مدد نہیں
کر سکتا- تمہیں ضرور کوئ غلط فہمی ہوئ ہے- مجھے جانے دو،"
قاسم نے اندھیرے میں ارد گرد دیکھنے کی کوشش کی کہ شاید غا ر کے دھانے سے اسے
مارگلہ کے پہاڑوں تلے غروب ہوتا نارنجی سورج نظر آجاۓ یا پہاڑ کے بالکل نیچے اسلام
آباد کے جی-6 کے سیکٹر کے ایک چھوٹے سے گھر میں اس کے لۓ ایک امرود اپنے دوپٹے میں
چھپاۓ اس کی ماں اسے ڈھونڈتے ہوۓ وہاں آجاۓ لیکن ایسا کچھ نہ ہوا- اب تو اس کا
طوطا ونس بھی اس کے کندھے پر خاموش بیٹھا تھا-
"کیا
تم کوئ جن ہو۔۔۔۔ میرا مطلب ہے کوئ چڑیل۔۔۔۔،" قاسم کو اپنی ماں کی ساری
نصیحتیں یاد آگیئں-
-"قاسم ان پہاڑیوں میں اکیلا نہ جایا کر-
یونیورسٹی اور بری امام کے پیچھے والی پہاڑوں میں جن بھوت کی دنیا آباد ہے-
سرِشام پریاں اور بھوت باہر آجاتے ہیں-وہ انسانوں کو پسند نہیں کرتے اور ان پرقبضہ
کر لیتے ہیں-" قاسم ڈر سے کانپ رہا تھا-
-"چلو، جانے کا وقت ہو گیا،" ایک نازک
ہاتھ نے انھیرے میں اس کے ہاتھ کو پکڑا- ونس ڈر کر پھڑپھڑانے لگا-
دوسری قسط
-"ہماری دنیا میں وقت اور نظر کے دھارے
تمہاری دنیا سے بالکل مختلف ہیں- تم فکر مت کرنا، میں ہر قدم پر تمہارے ساتھ ہوں
گی،" قاسم کو اندھیرے میں آواز آئ-
اور جیسے اس کے قدموں کے نیچے سے زمین سرک گئ-
وہ تیزی سے کسی انجان جانب سفر کرنے لگا- پانی کا شور اور سیلن کی بو اس سے دور،
بہت دور ہوتے گۓ اور پھر اس نے اپنے پاؤں کے نیچے زمین یا کوئ سہارا محسوس کیا یا
شاید وہ لٹک رہا تھا لیکن وہ رک گیا تھا-
قاسم نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولیں تواس کے سامنے
بہت خوبصورت اور شاندار شہر تھا- یہ کچھ کچھ کسی انسانی دنیا جیسا تھالیکن کچھ تو مختلف تھا اور وہ کیا تھا، قاسم سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ اسے کچھ سکون محسوس ہوا لیکن اگلے ہی لمحے اپنے
نیچے دیکھ کر اس کی چیخیں نکل گئیں- وہ ہوا میں معلق تھا اور اسے اپنے نیچے، بہت
نیچے شایداپنی دنیا نظر آرہی تھی اور یہی نہیں بلکہ اس کے بھی نیچے بڑی بڑی
چٹانیں، پانی، لاوا اور بہت کچھ ایسے لگ رہا تھا جیسے دنیا کے سارے پردے ہٹ گۓ ہوں
اور سب کچھ بے نقاب تھا- یعنی یہ دنیا ہوا میں معلق تھی۔ لٹکتے ہوۓ گھر، جڑوں والے بڑے بڑے درخت جھولتے پہاڑ اور ہوا پر چلتی عجیب سی مخلوق۔۔۔ قاسم ایک بار پھر آنکھیں بند کر کے چیخنے لگا جیسے وہ
نیچے گر جاۓ گا- کافی دیر چیخ چیخ کر وہ تھک گیا-
"میں ہوں ڈاکٹر فاف ۔ تم سے مل کر زیادہ خوشی نہیں ہوئ،" ایک اونچی آواز نے قاسم کی چیخوں کو روک دیا- اس کے سامنے ایک دراز قامت لیکن ہوا میں معلق ایک دراز قد آدمی کھڑا تھا – گہری نیلی رنگت کی جلد، بڑی سی سرخ دہکتی آنکھیں، ہونٹوں سے نکلتے بڑے دو دانت اور اس کے اوپر گول سی پہاڑ نما چیز شاید ناک تھی- رنگ دار بالوں والی ایک
آدمی نما مخلوق اس کے سامنے کھڑی تھی-
"میری تحقیق کے مطابق تو تم ایک بہادر اور
بہت لائق لڑکے ہو- اگر تم نیچے نہ دیکھو تو یہ سب اتنا بھی خوفزدہ نہیں ہے،"
ڈاکٹر فاف کے چہرے پر ایک پراسرار ہنسی تھی-
"ہ---ہاں---اگر میں نیچے نہ دیکھوں تو یہ
سب اتنا ڈراؤنا بھی نہیں،' قاسم نے سوچا اوراوپر دیکھا اور ایک بار پھر سے چیخنے لگا-
ایک بار پھر کسی نے اسے چیخنے سے نہ روکا اور اس نے تھک کر آنکھیں کھول دیں-
-"اگر تم نے چیخ لیا ہو تو کیا اب ہم کام کی بات کر سکتے ہیں؟" ڈاکٹر فاف نے بیزاری سے کہا-
'تمھارا شکریہ کہ تم ہماری مدد کو آۓ- ہمیں جدید
دنیا کے کسی ایسے شخص کی تلاش تھی جس کا دماغ دنیا والوں کے بناۓ ہوۓ کمپیوٹر سے
بھی تیز ہو اور ہم کے ٹو، کے تھری اور کے فور کی چوٹیوں میں تلاش کرتے تم تک پہنچ
گۓ،"
-"کے ٹو تو سنا ہے۔۔۔ یہ کے تھری، کے
فور۔۔۔ کہاں ہے!" قاسم سوچ میں گم تھا-
-"ہماری ملکہ کی اکلوتی شہزادی اور جنوں کی دنیاکی وارث شہزادی شینزا انسانوں کی دنیا کی سیر کو گئ اور وہاں گم ہو گئ- ہم کئ برسوں سے اس کی تلاش میں ہیں لیکن کامیابی
نہیں ہوئ- ہماری سلطنت کے ماہر جادوگروں نے حساب لگا کر بتایا ہے کہ مختلف طلسمات کے زور سے شہزادی کو دنیا میں گم کر دیا گیا-
شہزادی اور جنوں کی دنیا کے درمیان پردہ حائل کر دیا گیا ہے اور وہ انسانی دنیا میں بھٹک رہی ہیں- ہمیں ڈر ہے کہ جلد ہی شہزادی کو مار دیا جاۓ گا اور اس کے لۓ انسانی دنیا کی جدید ایجادات جیسے کے کمپیوٹر اور باقی لہروں کا استعمال کیا جاۓ گا-
اب شہزادی کو کوئ قابل انسان ہی واپس لا سکتا
ہے تو میں نے بطور ملک کے بڑے سائنس دان اور ملکہ کے قابل بھروسہ وزیر ہونے کے
ناتے تمہارا انتخاب کیا ہے- مجھے امید ہے کہ تم ہماری شہزادی کو واپس لے آنے میں
ہماری مدد کرو گے،"
-"میں لیکن---- میں کیسے،"
-"میں تمہیں طلسمات کی دنیا کی پانچ طاقتیں
دوں گا اور پھر تمہیں تمہاری دنیا میں واپس بھیج دیا جاے گا جہاں تم شہزادی کو
ڈھونڈ کر سارے طلسمات توڑ دو گے اور ہماری شہزادی کو آسمان کی دنیا میں
واپس----،" ابھی ڈاکٹر فاف کی بات پوری نہ ہوئ تھی کہ قاسم نے غور کیا کہ اچانک
ڈاکٹر فاف، اس کے ملازم جن زاد، پریاں اور ہوا میں معلق آس پاس موجود ہر چیز نے
خاموش ہو کر سر جھکا لۓ- جیسے ہوا میں ایک سحر طاری ہو گیا اور ہر چیز نے سانس روک
لی-
-"ملکہ طلسمات جہاں ، تشریف لا رہی ہیں- سر
جھکا لو،" قاسم نے آواز کی سمت مڑ کر دیکھا تو اس کے پاس یہ وہی نیلی رنگت والی پری کھڑی
تھی جو قاسم نے اسے اس کی آواز سے پہچاناورنہ وہ تو اسے اندھیرے غار سے اس دنیا میں چھوڑ کر غاٸب ہو گٸ تھی۔ اس نے بھی سر جھکایا ہوا تھا- قاسم کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اچانک اس کے
آس پاس کا ماحول بدل گیا اور اس نے اپنے آپ کو ایک شاندار کمرے میں پایا جو شاید
بادلوں پر ٹھہرا ہوا تھا- قاسم کی توقعات کے برعکس اس کے سامنے ایک نہایت خوبصورت
عورت ، سر پر ہیروں کا تاج پہنے ایک شیشے کے بنے تخت پر بیٹھی تھی- اس کی کمر پر
بہت ہی بڑے اور ہیبت ناک قسم کے پر تھے – آنکھیں سرخ لیکن سحرزدہ تھیں جیسے کسی شاعر کو خواب ہو- قاسم بھی اس کے رعب اور طاقت سے مرعوب ہوے
بغیر نہ رہ سکا اور اس کی نظریں خود بخود جھک گئیں-
-"کیا تمہیں یقین ہے کہ یہ آدم زاد شہزادی شینزا کو واپس لے آۓ گا-"
-"بے شک، میری دو سو سال کی تحقیق کے مطابق، شہزادی کو ڈھونڈنے کا صحیح وقت آگیا ہے-اور میں نے صحیح انسان کو ہی اس کام کےلۓ چنا ہے- آخر شہزادی کی واپسی ہماری سلطنت کی بقا کے لۓ بہت ضروری ہے