جن، جادو اور سالگرہ۔ اردو کہانی
اردو ڈراٶنی کہانی
مصنفہ صاٸمہ ندیم :
ایان اور عرشین جڑواں بہن
بھاٸ تھے۔ ان کی سالگرہ قریب تھی۔ انھوں نے اپنے بابا سے اس سالگرہ پر کچھ مختلف کرنے کی خواہش کی۔ ان کے بابا نے انھیں کٸ کیک دکھاۓ، بہت سی سجاوٹ کی چیزیں لے کر دیں لیکن وہ خوش نہیں تھے۔ سالگرہ سے ایک دن پہلے ان کے بابا کو شخص کا فون آیا۔ وہ شخص ایک جادوگر تھا اور عرشین اور ایان کی سالگرہ پر بچوں کو جادو دکھانا چاہتا تھا۔ بابا کو کچھ عجیب لگ رہا تھا کہ اس شخص کو سالگرہ کا کیسے معلوم ہوا اور ان کا نمبر کیسے ملا۔ اس جادوگر نے کہا کہ اس نے دکان میں بچوں اور ان کی باتیں سن لیں تھیں اور پھر نمبر بھی لے لیا دکان والے سے۔ جادوگر نے بتایا کہ وہ پیسوں کی بجاۓ سالگرہ کا آدھا کیک لے گا اور بچوں کے لۓ تحفے بھی لاۓ گا۔ بابا کو کچھ عجیب لگ رہا تھا لیکن عرشین اور ایان کی ضد کی وجہ سے وہ مان گۓ۔
آخر سالگرہ کا دن آگیا ۔ عرشین اور ایان کے بہت سے دوست اور کزن بھی آۓ تھے۔ اچانک ایک عجیب شکل والا شخص کالی ٹوپی اور کالا جبہ پہنے سالگرہ میں آگیا۔
اس کے ہاتھ میں ایک بڑا سا محل جیسا گڑیا کا گھر تھا اور اس کے پیچھے ایک پیارا سا پونی گھوڑا تھا۔
اس نے وہ تحفے ایک میز پر رکھ دیۓ۔
۔” کیوں بچوں جادو دیکھنے کے لۓ تیار ہو نہ“۔ وہ بولا۔
۔”جی۔“ بچے چلاۓ۔
۔تو آڈبرا۔۔۔کھاڈبرا۔۔۔۔گیلی گیلی۔۔۔چھو منتر۔۔۔عادل خرگوش بن جاۓ۔“ یہ کہہ کر جادوگر نے اپنی چھڑی ایان کے کزن عادل کی طرف کی تو وہ غاٸب ہوگیا اور سامنے میز پر کیک کے پاس ایک خرگوش چھلانگیں لگانے لگا۔ یہ دیکھ کر تو بچوں کا سانس ہی رک گیا۔ عادل کی امی رونے لگیں۔
۔”۔تو آڈبرا۔۔۔کھاڈبرا۔۔۔۔گیلی گیلی۔۔۔چھو منتر۔ عادل واپس آجاۓ“ ۔ اور عادل
واپس آگیا۔
”۔اب کون اگلا جادو دیکھنا چاہتا ہے“۔
بچے ڈرتے ڈرتے بولے کہ میں۔۔۔میں
۔تو آڈبرا۔۔۔کھاڈبرا۔۔۔۔گیلی گیلی۔۔۔چھو منتر۔ تو شہزادی عرشین قید ہو جاۓ، سارے بچے مینڈک اور چمگاڈریں بن جاٸیں“۔
عرشین نے دیکھا تو اس کے ہاتھوں میں زنجیریں تھیں اور ایک کمرے میں تھی جہاں بہت سے مینڈک اچھل رہے تھے۔ کچھ پتھر کے بنے بھوت تھے اور چلاتی ہوٸ چمگاڈریں چھت پر لگے جالوں میں پھنسی ہوٸ تھیں۔ ااایسا لگ رہا تھا جیسے بہت سے بچے کہیں رو رہے ہوں۔
عرشین بھی زور زور سے رونے لگی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ کہاں ہے۔
عرشین نے باہر دیکھا تو وہ اسی گڑیا کے گھر میں قید تھی جو جادوگر تحفے میں لایا تھا۔
ادھر ایان ڈر کر چیخنے لگا۔ سارے بچوں کے ماما بابا پریشان ہو گۓ تو جادوگر بولا۔ چلو تمہیں بھی شہزادی عرشین کے پاس بھیجتا ہوں۔
”آڈبرا۔۔۔ کھاڈبرا۔ گیلی گیلی۔ چھو منتر۔۔۔شہزادہ ایان بندر بن جاۓ اور سارے لوگ میرے غلام بھوت“۔
اور سارے لوگ شہزادی عرشین کے پاس اسی خوفناک کمرے میں پہنچ گۓ۔
اب سارے لوگ اس جادوٸ محل میں قید تھے۔ کچھ بچوں نے بھاگنے کی کوشش کی تو بڑے منہ والے درختوں نے ان کاپیچھا کیا اور انھیں پکڑ لیا۔ جی ہاں اس محل کے درخت چل رہے تھے اور اپنے بڑے منہ کھول کر مینڈک بنے بچوں کو کھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ کیا ہو رہا ہے کوٸ ہمیں بچاۓ؟ شہزادی عرشین چلاٸ۔
۔” ہا ہا ہا۔۔۔ اب میں بن جااٶں گا دنیا کا سب سے طاقتور جن۔۔۔آج میری سالگرہ ہے اور ان سب بچوں سے میں مزیدار کیک بناٶں گا اور کھاٶں گا۔ یہ دیکھو میں دنیا سے ایسے بچے لے آیا ہوں جن کی آج سالگرہ تھی اور ان کے دوست بھی۔ چلو اب میری طاقت بڑھا دو“۔ جادوگر اوپر دیکھ کر بولا۔
۔”ابھی میری سالگرہ ختم ہونے میں کچھ دیر ہے۔ میں تم سب بچوں کو بارہ بجے سے پہلے کھاٶں گا۔ تب تک میں دنیا کے آدھے کیک اور ان مینڈکوں سے اپنا کیک بنانے کے لۓ آگ جلاتا ہوں“ جن ہنستا ہوا ایک طرف چلا گیا۔ ۔”اور ہاں سالگرہ والے بندر تم میری مدد کرو گے۔ اور تمہاری بہن سے میں موم بتی بناٶں گا۔“
اس کے جاتے ہی بچے پھر مدد کے لۓ چلانے لگے لیکن وہاں کوٸ نہیں تھا۔ ان کے ماما بابا تو پتھر کے بن گۓ تھے یا غلام بھوت۔
۔”میں تم لوگوں کی مدد کروں گا اس جن جادوگر سے بچنے میں لیکن اس کے بدلے تمہیں مجھے کچھ دینا ہوگا۔“ یہ تو وہ پونی گھوڑے کی آواز تھی جسے وہ جن جادوگر سالگرہ پر لایا تھا۔
۔” ہم تمہاری ہر بات مانیں گے بس ہمیں اس جن جادوگر سے بچا لو۔“ ایان بندر بنے ایک درخت سے لٹکتے ہوۓ بولا۔
۔”اس محل کے پیچھے ایک اونچا پہاڑ ہے۔ اس پہاڑ کی چوٹی پر ایک اندھیرا غار ہے۔ اس غار کی تہہ میں ایک صندوق ہے جس میں ایک طوطا قید ہے۔ اس طوطے میں اس جن جادوگر کی جان ہے ۔ اگر ہم اس طوطے کو ما ر دیں تو جن جادوگر خودبخود ختم ہو جاۓ گا۔ لیکن اس صندوق پرایک موٹا تالا لگا ہوا ہے۔ اس تالے کی سو ایک جیسی چابیاں ہیں لیکن کوٸ نہیں جانتا کہ اصلی چابی کونسی ہے۔ غلط چابی لگانے والا ہمیشہ کے لۓ جن جادوگر کا غلا م بن جاتا ہے اور دوسرا اس غار تک پہنچنے کے لۓ ہمیں سانپوں کی اور آگ کی و
آگ کی وادی سے گزرنا ہوگا۔ راستے میں ایک جنگل ہے جس می چلنے والے درخت اور بہت سی بدروحیں بھی ہیں۔ میں تم سب کو غار تک لے جاٶں گا لیکن شرط یہ ہے کہ چاہے کتنا ہی ڈر کیوں نہ لگے تم میں سے کوٸ چیخ نہیں مارے گا اور یقین رکھے گا کہ ہم جن جادوگر کو ختم کر دیں گے“۔
۔”ہاں ہم چیخ نہیں ماریں گے او ر نہ ہی ڈریں گے۔ بس ہمیں بچا لو۔“بچے چلاۓ۔
۔” چلو تو پھر ہمارے پاس وقت بہت کم ہے۔ ابھی وہ جادوگر آگ جلانے کے لۓ سامان لینے گیا ہے۔ تب تک ہم پہاڑ تک پہنچ سکتے ہیں۔“
سب بچے پونی گھوڑے پر بیٹھ گۓ اور گھوڑا چلتا ہوا آگ کی وادی میں پہنچا۔ وہ آگ کے اوپر سے چل رہا تھا کہ کچھ بچوں نے چیخیں مارنا شروع کر دیں وہ بچے وہیں گر گۓ۔ ایسا ہی سانپوں کی اور بدروحوں کی وادی میں ہوا۔ پونی گھوڑا بھاگتا رہا اور چیخیں مارنے والے بچے راستے میں گرتے رہے۔ اب پونی گھوڑا پہاڑ پر چڑھ رہا تھا جہاں وہ انھیرا غار تھا۔ اب گھوڑے پر عرشین، ایان اور ان کا دوست عادل رہ گۓ تھے۔ جلد ہی وہ گھوڑا اس اندھیرے غار میں داخل ہوا اور انھیں سو چابیاں نظر آٸیں۔ بارہ بجنے والے تھے اور جن جادوگر واپس آنے والا تھا ۔ وہ ایک بھی غلط چابی نہیں لگا سکتے تھے۔ وہ پریشان تھے کیونکہ تمام چابیاں ایک جیسی تھیں
۔”ہم یقین ، اتفاق اور اپنی اندرونی طاقت سے ہمیشہ صحیح فیصلہ کر سکتے ہیں۔ آٶ مل کر ایک چابی لگاٸیں۔“
وہ پونی گھوڑا بولا۔ ان چاروں نے مل کر ایک چابی اٹھاٸ۔ بندر بنےایان نے چابی پکڑی تو عرشین، مینڈ ک عادل نے اس پر اپنا ہاتھ رکھ د یا اور پونی گھوڑے نے اپنا پاٶں۔ سب نے آنکھیں بند کرلیں۔ بارہ بجنے میں چند سیکنڈ رہ گۓ تھے۔ ایان نے چابی گھماٸ تو تالا کھل گیا۔ صندوق میں ایک طوطا تھا جو اڑنے والا تھا کہ عادل نے اسے اپنے منہ سے پکڑ لیا۔ عرشین نے اس کی گردن مڑوڑ دی۔ طوطے کی گردن مڑتے ہی آسمان سے ایک زوردار چیخ کی آواز آٸ۔ سب نے اوپر دیکھا تو آسمان میں جن جادوگر مٹی بن کر نیچے گر
رہا تھا۔ ہھر اچانک زوردار زلزلہ آیا اور سب ختم ہو گیا۔ بچوں نے اوپر دیکھا تو وہ ایک خوبصورت باغ کے سامنے تھے۔ ان کے سب دوست وہا ں موجود تھے اور خوش تھے۔ وہ آگ کی وادی کی جگہ نیلی ندی بہہ رہی تھی۔ وہ خوفناک درخت اب ہوا میں جھوم رہے تھے۔ ان کے سامنے ایک خوبصورت شہزادہ کھڑا تھا۔
۔”تم بچوں کا شکریہ کہ مجھے اور میری سلطنت کو جن جادوگر کے سحر سے آزاد کروادیا۔ میں وہی پونی گھوڑا ہوں جس نے تمہاری مدد کی۔
ترپنو میری سلطنت کا بہت بڑا جادوگر تھا۔ سب لوگ اس کے جادو دیکھنے دوردور سے آتےتھے۔ اسی شہرت نے اس کا دماغ خراب کر دیا تھا۔ اس نے میری سلطنت پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا ہوا تھا۔
اس دن میری سالگرہ تھی۔ سلطنت میں بہت شاندار دعوت رکھی گٸ تھی۔ اس دعوت میں یہ جادوگر بھی مدعو تھا۔اس نے سالگرہ کے کیک پر جادو کر دیا اور مجھے پونی گھوڑا بنا دیا۔ اس نے پوری سلطنت پرجادو کردیا۔ لیکن سلطنت کے جادوگروں نے آدھا کیک بچالیا۔ ترپنو جادوگر نے غصے میں آکر اپنے آپ کو جن بنا لیا اور اب اسے سب سے طاقتور جن بننے کے لۓ دنیا سے آدھا کیک اور انسانی غلام چاہیںے تھے۔ اور اسی لۓ وہ تم لوگوں کو یہاں لے آیا تھا۔ اور ہم سب نے مل کر اسےانجام تک پہنچا دیا“۔
۔” لیکن اب سب بچے آزاد ہیں کیوں نہ ہم سب مل کر اپنی سالگرہ مناٸیں“۔
شہزادے نے سلطنت میں پھر سے سالگرہ کے جشن کا اعلان کر دیا۔
سب بچے سالگرہ منا رہے تھے کہ سب ختم ہو گیا اور وہ واپس اپنے گھر پہنچ گۓ۔ باقی سب تو ٹھیک ہوگیا تھا لیکن اب وہاں جادوگر نہیں تھا اور نہ ہی اس کے تحفے تھے اور لیکن ہاں وہاں سالگرہ کا آدھا کیک نہیں تھا۔