وہ سکول کی شرارتیں۔
اردو کہانی
#Schoolgapian- سکول
گپیاں
ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک سکول
میں ساتویں جماعت کی لڑکیاں بہت شرارتی تھی وہ اللہ کام کرتی تھی ایک دن انہوں نے لڑائی کی اور جلد ہی دوستی کرلی۔ پھر ایک دن آدھی چھٹی کے وقت جب جماعت کی ساری لڑکیاں جماعت سے باہر گئی تو انہوں نے سب کی پانی کی بوتل ادهر اُدھر کر دی جب
بر یک ختم ہوئی تو ساری لڑکیاں جب جماعت میں آئیں تو انہوں نے دیکھا کہ سب کی بوتل ان کے بستے میں نہیں ہے انہوں نے استانی کو بتایا پھر استا نی نے ان سب کی سرزنش کی لیکن ان لڑکیوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا انہوں نے بہت کارنامے انجام دیے ۔بیڈ گرل سےبدتمیزی کی پھر ہیڈ گرل نے سیکشن بیڈ کو بتا دیا اور پھر سیکشن بیڈ نے ان کی اچھی سرزنش کی ۔ وارننگ لیٹر دیا اور انہیں بیڈ گرلز سے معافی مانگنے کا کہا ۔پھر کچھ دن سکون سے گزرے پر پھر سکول کی ایک پارٹی آگئی لیکن پارٹی میں گھر سے موبائل وغیرہ لانے کی بالکل اجازت نہیں تھی اور استانی نے سختی سے منع کیا تھا لیکن وہ گروپ کہاں منع ہونے والا تھا ۔ نہ صرف اس گروپ کی بچیاں موبائل لے کر ائی بلکہ وہ سکول میں جگہ جگہ تصویریں بھی بنانے لگیں۔بس اب تو کلاس کی استانی کو غصہ آگیا انہوں نے بچیوں سے نہ صرف موبائل لیے بلکہ بچیوں کے گھر سے ان کے ماں باپ کو بھی بلا لیا۔ بس پھر ایک وارننگ لیٹر اور تھوڑی سی نصیحتیں سننی پڑی اور ۔
بچیوں نے معافی مانگ لی۔
ہمارے امتحان آگے پھر۔۔۔ر
جی جی۔۔۔ آپ صحیح سمجھے یہ میری اور میری دوستوں کی کہانی ہے۔ اب آگے سنیے پھر سب نے امتحانات کی تیاری کی ہماری پوری جماعت نے بہت اچھی تیاری کی تھی۔
ا متحانات بہت اچھے ہوئے لیکن جس دن ہسٹری کا پیپر تھا اس دن سب بہت پریشان تھے کیونکہ ہسٹری ہماری پوری کلاس کو بہت مشکل لگتی تھی۔ سب نے اپنی طرف سے ہسٹری کی بھی بہت اچھی تیاری کی لیکن ہمارے گروپ کی ایک لڑکی نے واش روم میں بستہ رکھ دیا جس میں ہسٹری کی کتاب تھی اور کاپی بھی تھی اس نے پیپر کے دوران اس استانی سے پوچھ کر باتھ روم گئی اور امتحان میں جو سوال آئے تھے وہ دیکھ کر آئی۔ ہسٹری کی کتاب اور اسے ہماری ایک استاد نے پکڑ لیا اور اسے پرنسپل کے پاس لے کر چلی۔گئی لیکن اس لڑکی نے ماننے سے انکار کر دیا کہ وہ نہیں تھی۔ اس کا پورا گروپ شامل تھا ۔اس لڑکی نے ایسا کہا میڈم نے کہا اچھا چلو اگر تم نہیں تھی تو امتحان میں جو سوال آئے ہیں جو تم نے حل بھی کیے ہوئے ہیں ان کا جواب سنا دو لیکن اس نے نہیں سنائے ۔اس کی گروپ کی لڑکیوں نے سنا دیے۔ لیکن وہ لڑکی پھر بھی اپنی غلطی نہیں مان رہی تھی پھر ہماری میڈم نے کیمرے میں دیکھا کہ کون تھا پھر پتہ چلا کہ وہی لڑکی تھی۔ اس کے گھر فون کر کے اس کی امی کو سکول آنے کا کہا اور اس کی امی کے سامنے اس کو بہت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑاپھر اسے بہت شرمندگی ہوئی اس نے میڈم سے معافی مانگی اور میڈم نے اسے اخری بار معاف کیا ۔ اس کے بعد وہ اچھی بچی بن گٸ۔ بس اپنے اسے ذرا غصہ زیادہ آنے کا کا مسئلہ تھا۔نخرے بھی بہت ہی دکھاتی تھی لیکن اس واقعے کے بعد وہ بہت بدل گٸ۔ اچھی لڑکی بن گئی۔ اور اب تو اس بات کا کافی عرصہ ہو گیا۔ ہے ہر لڑکی آپ تک اس نہ تو کچھ بن گئی ہے کوئی انجینیئر ، ڈاکثر استاد وغیرہ اور اب ہم جب بھی ملتے ہیں تو اپنی پوری بچپن کی باتوں پر ہنسی آتی ہے ۔لیکن ہاں یہ بھی ہے کہ ہمارا بچپن بہت اچھا گزرا ہے ہم نے کالج میں بھی اکٹھا پڑھا اور ہمیں بہت مزه آيا بم امتحانات بھی بہت اچھے دیتے تھے۔نقل کرنے کی کوشش تو بس ایک ہی دفعہ کی تھی اور پکڑے بھی گئے تھے۔ پھر اس لڑکی نے کبھی واش روم میں کتاب بھی نہیں چھپائی۔ یونیورسٹی بھی ہم نے اکٹھا پڑھا۔ لیکن سب سے زیادہ سکول کا گزرا ہوا وقت یاد آتا ہے۔ کبھی استانی کا جماعت میں نہ آنا اور ہم نے کلاس میں اودھم مچایا ہونا پھر جب استانی آتی تو ان سے خوب ڈانٹ کھانا اور ایک دوسرے پر الزام لگانا کہ میں نہیں یہ شور کر رہی تھی۔ سچ میں سکول کے قت بہت اچھا تھا اور بچپن تو لوٹ کر نہیں اتا پر یادیں آتی ہیں۔ دوستوں کے ساتھ ٹیچر سے واش روم اور پانی پینے کا بہانہ کر کے ایک ایک کر کے کینٹین جانا اور دوستوں کے ساتھ رول کهانا ۔ بریک ٹائم پارٹی کرنا ۔ چھوٹی جماعت کے بچوں کو آتے جاتے تنگ کرنا۔ گراؤنڈ میں گول دائرہ بنا کر اس میں بیٹھ کر باتیں ۔کرنا سب یاد آتا ہے
: وقت ایک سا نہیں رہتا کبھی اچھے لوگ بھی برے ہو جاتے ہیں اور برے لوگ بھی اچھے ہو جاتے ہیں اس -مطلب یہ نہیں کہ ہم ان پر اعتبار کرنا چھوڑ دیں یا ان سے بات چیت کرنا بند کر دے ہمیں چاہیے کہ ہم ان کو بتائیے کہ صحیح بات کیا ہے اور غلط کیا ہے۔ بے شک اچھے دوست اللہ کی ایک نعمت ہوتے ہیں۔ شرارتیں اپنی جگہ لیکن بہت کچھ سکھا جاتے ہیں۔