وطن کے نام-اردو شاعری-
تقسیم ہو جاتی در تقسیم، حیراں بن جاتا پریشاں
جو قوم دے دے راستہ ہر بے حمیت کو
جو بن
گۓ جوان خود کش بم ، بچانے ملت کو
نکل پڑے
کئ معصوم جنازے، شہرِ رحلت کو
ڈنڈا
تھا یا چھینا ہوا اسلحہ بمقابلہ کروز میزائل
سامنا تھا وحشی دشمن کا، خون بے قیمت کو
پمفلٹ گراۓ، مرضی کے فتوے پھیلاۓ
پیسہ، دھمکی، دھونس سب بکا قیمت کو
بھٹک گۓ، بہہ گۓ یا رسوا ہوۓ
بہت گراں گزرے کئ سال طبیعت کو
سیکھ لیا جو سکھا دیا، پڑھ لیا جو پڑھا دیا
کتاب، سوچ، سوال، فکر لپٹے رہے جہالت کو
چلے تھے جہاں سے، رکے ہیں کہاں پہ
یہ پوچھے کوئ میرے ایٹم بم کی وراثت کو
وطن کی محبت جو ہوئ بھاری تم پر
سمیٹ لیں اس نے بھی بانہیں خلوت کو
منانا ہے مٹی کو، نظریہ ڈھونڈھ کر لانا ہے
واحد سے وفا چاہیے سکون بھری جلوت کو
اند ھیرا واپس نہ آۓ، خون نا حق نہ بہاۓ
بند کر دیے سارے دشمن رستے گھر کی خدمت کو
لوٹ رہے صبح کےبھولے، پکار رہے جوش میں
اب شام چمکے گی صبح سے زیادہ وقت کو
جُت گۓ، ڈٹ گۓ، لڑ گۓ اپنے وطن کی حفاظت کو
بھولیں
ہیں نہ بھولنے دیں گے ہم، ہماری شہرت کو