Urdu Kahani for kids
Urdu story on Eid ul Fitr
عید الفطر کی کہانی بچوں کے لۓ
Eidi gum ho gai
عیدی گُم ہوگئ
آخرکار وہ دن آنے والا تھا جس کا بچوں کو سارا
سال انتظار رہتا ہے- جس دن انھیں خوب ڈھیر سارے پیسے ملتے ہیں- وہ پورا دن باہر
کھیلتے ہیں- خوب آئسکریم اور چپس کھاتے ہیں لیکن کوئ انھیں منع نہیں کرتا-سب لوگ
بہت خوش ہوتے ہیں- عید الفطر یعنی چھوٹی عید میں ایک دن باقی تھا یا شا ئد دو دن-
وانیا اور آمنہ اپنے چچا کے بچوں ارحا اور حمزہ
کے ساتھ بازار آئیں تھیں-وہ دونوں آمنہ کے ہم عمر ہیں- بازار میں بہت رش تھا-
لڑکیاں چوڑیاں، مہندی اور ٹاپس لے رہی تھیں اور لڑکے نئ گھڑیاں، عینک اور پرس لے
رہے تھے- وہیں فرشته اپنے بڑے بھائی اور
بہن کے ساتھ کاغذ چُن رہی تھی- وہ سب بچوں کو اور ان کی چیزوں کو دیکھ حسرت سے
دیکھ رہی تھی-
آج
انتیسواں روزه تھا اور سب کو چاند کا انتطار تھا- انتیس روزوں کی چاند رات اور عید
کا مزه ہی الگ ہوتا ہے، بالکل کسی سرپرائز جیسا- آمنہ اور ارحا نے بھی ایک جیسا
پرس لیا تاکہ وہ اس میں عیدی جمع کر سکیں- حمزہ تو کار والی گھڑی اور اسپائیڈر مین
والا پرس لے کر بہت ہی خوش تھا-
'کتنے پیارے پرس ہیں، مجھے بھی ایسا ہی چاہیے،'
فرشتہ آمنہ اور ارحا کے پاس آکر اونچی آواز میں بولی-
'یہ گھڑی دیکھو، اس پر کار کی تصویر ہے،' اس کا
بھائ حمزہ کی گھڑی دیکھ کربولا-
'جاؤ یہاں سے، یہ ہمارا ہے-'
آمنا اور ارحا ڈر گئیں-
دکاندار نے فرشتہ اور اس کے بھائ کو ڈانٹا اور فوراً وہاں سے جانے کو کہا-
'فرشتہ چلو، ہم شام کو کاغذ بیچ کر عید کی چیزیں
لیں گے،' فرشتہ کی بڑی بہن وہاں آگئ اور انہیں سمجھاتے ہوۓ وہاں سے
دُور لے گئ-
رات کو جیسے ہی چاند نظر آنے کا اعلان ہوا تو سب
خوشی سے ایک دوسرے کو مبارک دینے لگے- وردہ چاچی نے سب بچیوں کو مہندی لگائ- بچوں
کو خوشی سے نیند نہیں آرہی تھی –انھوں نے اپنے نۓ کپڑے، نۓ جوتے اور باقی چیزیں سامنے
رکھ لیں- عید کے تین دن کے تین نۓ جوڑے تھے- کئ ساری دعوتیں اور باہر جانے کے پروگرام تھے- وہ ساری رات کھیلنا چاہتے تھے
لیکن آخر تھک کر سو گۓ- آخر کار انتظار ختم ہوا-
'جس بچے کو عیدی چاہیے وہ جلدی سے تیار ہو جاۓ،'
دادا جان ہمیشہ کی طرح عید کی صبح سب بچوں کو اٹھایا -
سب بچے
تیار ہو کر آگۓ- حمزہ تو نئ شلوار قمیض پہن کر بالکل شہزادہ لگ رہا تھا- وہ اپنے
بابا کے ساتھ عید کی نماز پڑھنے چلا گیا-
آمنہ اور ارحا جب نئ فراک، اور چوڑیاں پہن کر باہر آئیں تو بالکل پریاں لگ رہی
تھیں- آج تو ان کی ماما نے انہیں ہلکا سا میک اپ بھی کرنے دیا تھا- سب نے عید کی
صبح دادی جان کے ہاتھ کا مزیدار شیرخرمہ کھایا- اب بچوں سے مزید انتظار نہیں ہو رہا
تھا- دادا جان نے سب سے پہلے عیدی دی- پھر تایا ابو، بڑے چاچو اور چھوٹے چاچو نے
عیدی دی- سب بچے اپنی عیدی اپنے اپنے پرس میں جمع کر رہے تھے- انھوں نے فیصلہ کیا
کہ وہ اپنی عیدی کسی صورت بھی ماما کو نہیں دیں گے بلکہ ساری عیدی اپنی مرضی سے
خرچ کریں گے- ابھی تو نانی جان کے گھر سے بھی عیدی ملنی تھی-
کچھ ہی دیر میں باہر سے غبارے والے کی آواز آئ- ارحا، حمزہ اور آمنہ اپنی اپنی ماما کو بتا کرباہر آگۓ اور غبارے خریدے- گلی میں ان کے اور دوست بھی تھے-
ابھی وہ غباروں سے کھیل رہے تھے کہ آئسکریم والا آگیا-
'آج تو میں سب سے مہنگی والی آئسکریم کھاؤں گی،'
آمنہ بولی-
'میں بھی،' حمزہ اور ارحا نے کہا اور وہ آئسکریم
والے کے پیچھے بھاگنے لگے-
آئسکریم والا گلی کے کونے میں پارک کے پاس رک
گیا- پارک میں کھیلتے بچے بھی باہر آکۓ- وہاں بچوں کا رش لگ گیا-
اچانک
آمنہ نے دیکھا کہ فرشتہ اور اس کے بہن بھائ ایک طرف کھڑے سب بچوں کو دیکھ رہے تھے-
ان کے کپڑے تو پرانے تھے لیکن فرشتہ اور اس کی بہن نے لپ اسٹک لگائ ہوئی تھی اوربڑی
بڑی چوڑیاں پہنی ہوئ تھیں- فرشتہ کے بھائ نے کارٹون والی گھڑی باندھی تھی جس سے وہ
باربار وقت دیکھ رہا تھا-
وہ تینوں بہن بھائی کچھ دیر وہاں رکے اور پھر
پارک میں جا کر کھیلنے لگے-
حمزہ، ارحا اور آمنہ نے ایک بنچ پر بیٹھ کر
آئسکریم کھائ- پھر وہ پارک کے اندر چلے گۓ-
'جاؤ یہاں سے، یہ ہماری گلی کا پارک ہے، ' حمزہ
نے فرشتہ کے بھائ سے کہا جو کہ سلائیڈ لے رہا تھا-
' یہ ہمارا بھی پارک ہے، ہم نہیں جائیں گے،' اس
نے جواب دیا اور جھولا لینے لگا-
'ہم اپنے بابا کو بتائیں گے،' ارحا اور آمنہ نے
انہیں ڈرایا-
لیکن وہ نہیں گۓ یہاں تک کہ پارک کے باہر ایک
دوسرا آئسکریم والا آگیا- وہ تینوں بہن بھائ اس کے پاس جا کر کھڑے ہو گۓ-
حمزہ، آمنہ اور یرحا نے کچھ دیر جھولے لۓ اور
پھر انہیں بھوک لگنے لگی-
'چلو گھر چلیں- پھوپھو آگیئں ہوں گی،' آمنہ بولی
–
وہ تینوں گھر پہنچے تو سارے گھر میں مزیدار
کھانے کی خوشبو پھیلی تھی- پھوپھو اور باقی کزن بھی آگۓ تھے- وانیہ بھی اپنی ہم
عمر کزن کے ساتھ خوش تھی- بریانی، مرغی روسٹ، کباب، قورمہ، اور میکرونی سے کھانے
کی میز سج رہی تھی- پھوپھو نے انہیں عیدی دینے کے لۓ بلایا تو وہ بھاگتے ہوۓ گۓ-
لیکن آمنہ، ارحا اور حمزہ کو عیدی رکھنے کے لۓ اپنا پرس نہیں مل رہا تھا-
'کہیں تم لوگ اپنا پرس پارک میں تو نہیں بھول
آۓ، کتنے پیسے تھے اس میں؟' ماما نے پریشانی سے پوچھا-
'ہاں شائد، ہماری ساری عیدی تھی اس میں،' آمنہ
نے پریشان ہو کر بتایا-
'اب تک تو کوئ تم لوگوں کے پرس لے بھی گیا
ہوگا-' بابا بچوں کے ساتھ پارک میں آکر ڈھونڈنے لگے لیکن وہاں کچھ نہ ملا-
'اور تم لوگ کہاں کہاں گۓ تھے؟' پرس ڈھونڈتے وہ
لوگ ایک سپر سٹور تک آگۓ- وہاں فرشتہ اپنے بھن بھائ کے ساتھ موجود تھی-
'تایا ابو، ہمارا پرس ان لوگوں نے چُرایا ہے- جب
ہم پارک میں تھے تو صرف یہ لوگ وہاں تھے،' حمزہ نے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ اونچی
آواز میں بتایا-
'اور ہاں، کل یہ ہمارے پرس بھی دیکھ رہے تھے،'
'اور پارک میں ہم سے لڑ بھی رہے تھے اور ان کے
پاس آئسکریم کے پیسے نہیں تھے-' آمنہ اور ارحا بھی بولنے لگیں-
بابا فورا فرشتہ اور اس کے بہن بھائ کے پاس
پہنچے-
'کیوں بھئ، تم لوگوں نے پارک سے کوئ پرس تو نہیں
اٹھایا،' بابا نے سختی سے پوچھا-
'نہیں، ہم نے نہیں دیکھا اور نہ ہی اٹھایا ہے،'
'دیکھو اگر تم لوگوں نے کچھ پیسے خرچ کر دیئے
ہیں تو کوئ بات نہیں، تم لوگ باقی پیسے اور پرس واپس کردو،' بابا نے اس دفعہ تھوڑی
نرمی سے کہا لیکن وہ نہیں مانے-
شور سن کر سٹور کا مالک باہر آگیا- بابا نے اسے
ساری بات بتائ-
'میں ان بچوں کو جانتا ہوں- کاغذ وغیرہ چُنتے ہیں- پیچھے کچی بستی میں رہتے
ہیں- میرا نہیں خیال کہ انھوں نے کوئ پرس لیا ھے یہ تو کافی دیر سے یہاں ایسے ہی
بیٹھے ہیں- ہمارے بچے ہوۓکھانے کا انتظار کر رہے ہیں پھر بھی میں ان پر نظر رکھوں
گا،' مالک نے بابا کو بتایا-
آخر وہ مایوس گھر آگۓ – عید کا دن تھا اور بابا
کوئ بد مزگی نہیں چاہتے تھے- بچوں کو اب بھی یقین تھا کہ پرس ان غریب بچوں نے لۓ
ہیں- بچوں کو خوب ڈانٹ پڑی اور یہ بھی کہ اب ان کی عیدی ماما اپنے پاس رکھیں گی-
بچے بہت اُداس تھے-
تھوڑی دیر بعد سب کھانا شروع کرنے والے تھے کہ گھر
کی گھنٹی بجی- داداجان نے دروازہ کھولا تو سامنے
آئسکریم والا کھڑا تھا-
'یہ پرس آپ کے بچوں کے تو نہیں! صبح کوئ بچے
انہیں میری آئسکریم والی ریڑھی پر بھول گۓ تھے- ابھی مجھے ان بچوں نے بتایا کہ یہ
شائد آپ کے ہیں،' آئسکریم والے نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوۓ بتایا-
تھوڑی دور فرشتہ اور اس کے بھن بھائ کھڑے تھے-
'بہت شکریہ، اس میں بچوں کی عیدی تھی اور وہ بہت
اداس تھے،' دادا جان نے آئسکریم والے کا شکریہ ادا کیا- پھر انھوں نے فرشتہ اور اس
کے بھن بھائ کو اندر آنے کا کہا-
سب گھر والوں نے ان کا شکریہ ادا کیا اورانھیں
عیدی بھی دی-انھوں نے انھیں اپنے ساتھ کھانا کھانے کی دعوت دی- فرشتہ اور اس کے
بھن بھائ کھانا کھا کر واپس جا رہے تھے کہ آمنہ نے انھیں آواز دی-
'یہ آپ کے لۓ ھماری طرف سےعید کا تحفہ ہے-'
آمنہ، ارحا اور حمزہ کے ہاتھ میں ان کے نۓ پرس
اور عید کے دوسرے دن کے نۓ کپڑے تھے- باقی بچے بھی ان کے لۓ چیزیں اور کھلونے لاۓ
تھے-
'لیکن یہ تو نۓ ہیں،' فرشتہ کی بڑی بہن نے حیرت
سے کہا-
' ہماری دادی جان نے ہمیں بتایا ہے کہ ہم سمجھتے
ہیں کہ زکوٰۃ اور فطرانہ دے کر ہمارا فرض ادا ہو گیا اور ہم کئ دفعہ اپنے اردگرد
ضرورت مند لوگوں کو نظر انداذ کر دیتے ہیں- آج عید ہے اور عید کا اصل مقصد خوشیاں بانٹنا
اور دوسروں کو اس میں شامل کرنا ہے-اس سے اللہ بھی خوش ہوتا ہے اور ہمیں بھی سچی
خوشی ملتی ہےاور اس میں پہل آپ نے لوگوں
نےکی ہے- اب یہ ہم بچوں کی طرف سے آپ کے لۓ تحفے ہیں،' وانیہ نے جواب دیا-
فرشتہ اور اس کے بہن بھائ بہت خوش ہوۓ اور سب
بچے مل کر کھیلنے لگے-
ختم شد
چلیں بتائیں کیا سیکھا-
1۔ عیدالفطر کا اصل مقصد کیا ہے؟
'