علامہ محمد اقبال –تقریر/مضمون- اشعار- شاعرِ مشرق
Allama Muhammad Iqbal- Essa/
Speech- Level Grade 5-12 school students
For easy and simple Allama Iqbal
Essay/Speech for kids Grade 1-4 . Click HERE.
If you’re preparing for the
Allama Iqbal speech then add these lines in the start otherwise for Allama
Iqbal essay start from first paragraph.
لب پہ آتی
ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع
کی صورت ہو خدایا میری
جنابِ صدر، محترم اساتذہ اور میرے عزیز ساتھیو!
آج مجھے جس موضوع پر بولنے کا موقع دیا گیا ہے وہ ہیں شاعر مشرق علامہ محمد اقبال-
شاعر اور ادیب کسی بھی قوم کے لۓ آکسیجن کی طرح
ہوتے ہیں جو اپنے لفظوں کے ذریعے نہ صرف اپنی قوم کو زندگی کی طرف ما ئل رکھتے ہیں
بلکہ ان کے اندر موجود کمزوریوں کی نشاندہی کرکے اسے سنورنے کا مشورہ بھی دیتے
ہیں- ہماری قوم خوش قسمت ہے جس میں علامہ محمد اقبال جیسے مایہ ناز شاعر نے جنم
لیا- انھوں نے نہ صرف برصغیر کے مسلمانوں بلکہ تمام اہلِ اسلام کو اپنی پرجوش اور
جاں سوز شاعری کے ذریعے متاثر کیا- فارسی اور اردو زبان میں لکھی گئ ان کی کئ
نظمیں مسلمانوں کو ان کا کھویا مقام یاد دلانے کے ساتھ ساتھ ان کو اپنی شناخت، اور
آزادی کے لۓ آواز اٹھانے کے لۓ متحرک کیا- اس لۓ علامہ اقبال کو شاعرِ مشرق بھی
کہا جاتا ہے-
ایران میں تو انھیں اقبال آف لاہور کے نام سے جانا اور پڑھا جاتا ہے-
علامہ اقبال صرف ایک معروف شاعر ہی نہیں بلکہ
ایک ماہر قانون دان، ایک زیرک سیاست دان، معلم اور پر سوز مصنف بھی تھے-
علامہ اقبال کے نظریات صرف ان کی شاعری میں ہی
نہیں بلکہ ان کی سیاسی زندگی میں بھی نمایاں رہے- اس لۓ علامہ اقبال کی سوچ اور
فکر نے مسلمانوں کی آزادی کی تحریک میں نئ روح پھونک دی- علامہ اقبال کا فلسفہ
برصغیر کے مسلمانوں کے لۓ مشعل راہ بن گیا- مسلمانوں کے لۓ دیکھا جانے والا ان کا علیحدہ
وطن کا خواب مسلمانوں کے لۓ ایک ایسی طاقت بن کر ابھرا کہ جس کے سامنے کوئ طاقت پل
نہ باندھ سکی یہاں تک کہ وہ پاکستان کی شکل میں شرمندہ تعبیر ہو گیا-
ایک
بکھری ہوئ، مایوس قوم اور سالوں کی غلامی تلے پستی عوام کو اپنے لفظوں کے ذریعے اکٹھا
کرنا، ایک نئ امید دلانا اور ان کے لۓ ایک نئ منزل کا تعین کرنا ایسا کارنامہ ہے
جو علامہ اقبال کو پاکستان کے قومی شاعر کے رتبے پر فائز کرتا ہے-
9 نومبر 1877 کو جب علامہ اقبال سیالکوٹ میں
صوفی محمد کے گھر پیدا ہوۓ تو برِصغیر کے مسلمان ایک طرف تو انگریزوں کی غلامی میں
زندگی کزار رہے تھے اور دوسری طرف ہندوؤں کی ریشہ دوانیوں کا شکار تھے- علامہ
اقبال نے ابتدائ تعلیم سیالکوٹ سے حاصل کی- پھر گورنمنٹ کالج لاہور سی بی اے اور
ایم اے کی ڈگری لی- یہی وقت تھا جب علامہ اقبال نے اپنی قوم کی کمزوریوں اور خرابیوں
کا بغور مشاہدہ کیا- ابھی دنوں لکھی جانے والی علامہ اقبال کی نظم "پرندے کی
فریاد" ان کے جذبات اور دردِدل کو کچھ ایسے بیاں کرتی ہے:
یاد آتا
ہے مجھے گزرا ہوا زمانہ
وہ باغ کی
بہاریہں وہ سب کا چہچہانا
آزادیاں
کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کی
اپنی خوشی
سے آنا اپنی خوشی سے جانا
کچھ عرصے بعد علامہ اقبال نے کیمرج یونیورسٹی سے
قانون اور جرمنی سے فلسفے میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی- انھی دنوں علامہ اقبال
کو اپنی قوم کا موازنہ طاقتور قوموں سے کرنے کا موقع ملا- تبھی اپنی غلطیوں کو
قسمت کا نام دینے یا دوسروں پر ڈالنے کی بجاۓ انھوں نے اپنی قوم کو مایوسی کے
بھنور سے نکلا نے کا بیڑہ اٹھایا اور اس کے لۓ انھوں نے اپنے لفظوں کو ہتھیار
بنایا- یقیناً قلم کسی بھی تلوار اور بندوق سے زیادہ طاقت رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ
علامہ اقال کی شاعری دلوں میں سوز کی طرح اتر گئ-
دل سے جو
بات نکلے اثر رکھتی ہے
پر نہیں
طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
"اسرارِ خدائ"، "رموزِ بے خودی"
اور "بانگِ درا" علامہ اقبال کی وہ شاندار تخلیقات ہیں جو
تقریباً ایک صدی گزر جانے کے بعد بھی کسی بھی معاشرے کی اصلاح اور ترقی کا سبق
رکھتی ہیں-
خودی کر
کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے
سے خود پوچھے کے بتا تیری رضا کیا ہے
جہاں علامہ اقبال ایک طرف نوجوانوں کو اپنی خوداری کو سب سے آگے رکھنے کا مشورہ دیتے
ہیں وہیں اپنے حق کے لۓ پلٹنا اور جھپٹ کر پلٹنے کی نصیحت بھی کرتے ہیں-
پلٹنا،
جھپٹنا، جھپٹ کر پلٹنا
لہو گرم
رکھنے کا ہے اک بہانہ
کبھی تو علامہ اقبال نوجوانوں کے ساتھ اپنے
خیالی پرندے شاہین کے ذریعے ہم کلام ہوتے ہیں، کبھی بچوں کو "گاۓ اور بکری"
کی مثالیں دے کر سمجھاتے ہیں اور کبھی خواتین کو تصویر کائنات کا رنگ قرار دیتے
ہیں-
وجودِ زن
سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے
ساز سے ہے زندگی کا سوزودروں
علامہ
اقبال کی شاعری میں کہیں تو قرآن کی تشریحات کا رنگ جھلکتا ہے اور کہیں
علامہ اقبال کی معروف نظمیں شکوہ اور جوابِ شکوہ
تو اللہ سے ہم کلامی کی ایسی مثال پیش کرتی ہیں کہ جو آج بھی ہر مسلمان کے دل کی
آواز ہیں-
آج بھی ہو
جو ابراہیم کا ایماں پیدا
آگ کر
سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
علامی اقبال کے خیالات اور الفاظ میں تصوف کا
رنگ نمایاں نظر آتا ہے لیکن ان کا انداز سادہ اور عام فہم ہے-
غرض یہ کہ
علامہ اقبال کی شاعری نے نہایت جامع انداز میں معاشرے کے ہر فرد کو نامزد اور متاثر
کیا ہے- علامہ اقبال 21 اپریل 1938 کو ہم سے بچھڑ گۓ لیکن اپنی لازوال شاعری کے
ذریؑے آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں- آج بھی اہل پاکستان باشاہی مسجد لاہور میں
واقع علامہ اقبال کے مزار پر حاضری دیتے ہیں اور پاک فوج کے دستے اس عظیم قومی شاعر
کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں-
جنابِ صدر سوال یہ ہے کہ کیا اتنا عرصہ گنر جانے
کے بعد بھی ہم علامہ اقبال کے پیغام کو سمجھ پاۓ ہیں؟ کیا ہمارے نوجوان اقبال کہ
پرندے شاہین کی طرح اپنا ٹھکانہ پہاڑوں کی چٹانوں میں ڈھونڈتے ہیں؟ کیا آج بھی ہم
اپنی منزل سجدوں کی بجاۓ قصرِ امریکہ اور قصرِ یورپ کے ایوانوں میں نہیں ڈھونڈتے؟
جناب صدر افسوس یہ ہے کہ ہم آج بھی اقبال
کی شاعری کتابوں میں تو پڑھتے ہیں لیکن اس کی اصل روح سے بیگانہ اور غافل ہیں- شکریہ