آج اک عجاٸب گھر بستا دیکھا۔ museum poetry in Urdu. اردو نظم
اردو نظم عجاٸب خانہ کے بارے میں
آج اک عجاٸب گھر بستا دیکھا۔
اردو نظم
شاعرہ صاٸمہ ندیم
آج اک عجاٸب گھر کو بستا دیکھا
تاریخ کو روتے کبھی ہنستا دیکھا
تلوار تھامے تھے ٹینک اور ہتھیار
جنگ کا جنون روزانہ بڑھتا دیکھا
سرگوشیاں کرتے ان فن پاروں میں
ماضی اور مناظر کو سسکتا دیکھا
نظریہ ضرورت یوں بدل جاتے ہیں
ٹوٹے برتنوں کو نودرات بنتا دیکھا
وہ مورت تھے، شبہیہ یا حقیقت
حنوط ہوۓ تو جن کا سراپا دیکھا
شیشوں کے بھید آنکھوں میں اترے
پتھر ہوۓ مجسموں کو روتا دیکھا
تھے سب ہی دعویدار اس زمین کے
ایک ہی رنگ اترتے اورچڑھتا دیکھا
یاد رہے علم و انسانیت کے شیداٸ
لرزاتے فرعونوں کو اب سوتا دیکھا
جھانکا راہداری کے دریچوں سے تو
زندگی کو ٹھہرا موت کو چلتا دیکھا
آب حیات ملا کسی کو بھی نہ یہاں
وہ گزر گۓ اور خود کو گزرتا دیکھا
دل بھی تو عجاٸب گھر ہے دوستو
تبھی یادوں کو مٹھی میں سمٹا دیکھا