امی کا گھر
پھیلی ہوٸ یادیں اور گونجتی آوازیں
امی کے گھر جیتی ہیں ماضی کی سانسیں
نیم کے درخت کی گھنی چھاٶں کی طرح
بانہیں کھول رکھیں محبت بھری دیواریں
چھوٹے صحن میں ہاں جلتا تھا اک چولہا
اب کبھی ملتے ہیں بچھڑے بھاٸ اور بہنیں
کہیں دبی مانوس خوشبو بچپن کی
یاد کراۓ بے فکر کھیل اور تپتی شامیں
روزگار اور رواجوں سے رخصت ہوۓ مکیں
مہماں بنے بس کچھ چھٹیاں یہاں گزاریں
ابو کا گھر کب امی کا گھر بن جاتا
بنا کاغذ یہ سلسلے ساری گرد جھاڑیں
بوڑھے ماں باپ کھو جاتے ہیں جس دن کیوں
ویران ہو جاتی ہیں وہی گلیاں وہی راہیں
ہمیشہ امی کے گھر کی رونقیں نہیں رہتیں
پھر نہیں دیتا کوٸ جھولی بھر دعاٸیں
صاٸمہ ندیم