سکول گپیاں ٣
سکول گپیاں۔
نقل چور
۔ مزیدار کہانیاں
”آج میری ڈیوٹی ہے اس لۓ کوٸ طالب علم نقل کرنے کا سوچے بھی نہیں۔ میں پرچہ کینسل کردوں گی“ مس انعم نے اونچی آواز میں بول کر بچوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی جبکہ بہت سے طلبا اپنی کتابوں اور کاپیوں سے یاد کرتے رہے جیسے ہر استانی ہی آکر یہ کہتی ہیں۔ جس نے نقل کرنی ہے وہ موقع ڈھونڈ ہی لیتا ہے۔
پرچہ شروع ہونے میں چند منٹ تھے۔ مس انعم جوابی کاپیاں ساتھ لاٸیں تھیں۔ اب بس سوالی پرچوں کی تقسیم کا انتظار تھاجو سیکشن ہیڈ کچھ دیر میں لے کر آنے والی تھیں۔ اس کمرے میں جماعت ششم اور جماعت پنجم کی طلبہ کو اس طرح بٹھایا گیا تھا کہ ایک قطار جماعت پنجم اور ایک جماعت ششم کی تھی۔
اللہ اللہ کرکے سوالیہ پرچے آگۓ۔ سب بچوں کے یاد کرنے کی رفتار تیز ہوگٸ۔ ۔
”سب بچے اپنی کتابیں اور بستے باہر رکھ کر آٸیں۔ آخری بار کہہ رہی ہوں کہ نقل کا سوچنا بھی نہیں“
پرچہ شروع ہوا۔ طلبہ جی جان سے پرچہ کرنے لگے۔
مس انعم نے جماعت میں نظر دوڑاٸ۔ ایک تو وہ لاٸق بچے تھے جو ایک ایک نمبرکے لۓجی جان سے لڑتے ہیں۔ نہایت دھیان سے پرچہ کر رہے تھے۔ دوسرے زیادہ درمیانے نتیجہ لانے والے طلباتھے جن کی شکلوں پر پریشانی' محنت اور کوشش کے واضح آثار تھے اور جی وہ کچھ طلبہ بھی تھے جن کو نالاٸق کہنے پر سکول میں پابندی تھی۔ ان کے لۓ کچھ اور اصطلاحات بناٸ گٸیں جیسے ”آہستہ سمجھنے والے“۔ ”کچھ پیچھے رہنے والے” وغیرہ بس انھیں نالاٸق نہیں کہنا ورنہ وہ شکایت کرسکتے ہیں اور استانی کو بلا کر اس کو سنایا جاتا ہے کہ نالاٸق کو نالاٸق کیوں کہا۔
خیر ان طلبا کے چہروں پر کوٸ تاثرات نہ تھے۔ نہ پریشانی اور نہ سکون بس وقت گزرنے کاانتظار
تین گھنٹے کا وقت تھا۔ پہلے دو گھنٹے کچھ سکون سے گزرے۔ بس آخری گھنٹے میں جماعت میں بے چینی شروع ہوگٸ۔ مس انعم بھی چوکنا ہو گٸیں۔
”مریم آپ اٹھو یہاں سے۔ آگے جا کر بیٹھیں۔”
”خدیجہ میں تمہارے دو نمبر ماٸنس کر رہی ہوں۔ اب تم کرو نقل۔۔۔ بس تمہارے نمبر کاٹتی جاٶں گی” مس انعم بھی آزماۓ ہوۓ طریقے آزمانے لگیں۔
”نقل کرنے دینا ان بچوں کے ساتھ زیادتی ہوتا ہے جو واقعی پڑھ کر آۓ ہوتے ہیں۔ ایک دو خالی جگہ پوچھنے تک تو ٹھیک ہے مگر پورا پورا سوال ۔۔۔۔یہ نہیں ہوسکتا“انھوں نے ایک اور اعلان کیا جو آخری لمحوں پر پرچہ کرتے طلبا کے اوپر سے گزر گیا۔
تبھی جماعت پنجم کی ایک طالبہ اٹھ کر مس انعم کے پاس آٸ۔
”مس اس بچی نے تیسری قطار میں بیٹھی اپنی دوست سےاس کا حل شدہ پرچہ لیا ہے۔ آپ جاکردیکھ لیں۔”
بس مس انعم تیزی سے پیچھ گٸیں۔
اس بچی کو کھڑا کیا یہ کوٸ نٸ طالبہ تھی۔ مس انعم نے شیٹ اٹھاٸ اس پر لکھا تھا ”ہبہ مصطفی“ تو آپ کا نام ہبہ ہے۔ تبھی ایک اور شیٹ کرسی کے نیچے گری جیسے کسی نے چھپانے کی کوشش کی ہو۔ مس انعم نے اٹھایا تو اس پر لکھا تھا ”جنت میر“۔۔۔
”یہ کس کی شیٹ ہے ۔۔۔ کون ہے جنت میر“ ایک لمحے تک جماعت سے کوٸ جواب نہ آیا۔
”چلیں میں آپ دونوں کا پرچہ کینسل کرتی ہوں۔۔تب آپ کو پتہ چلے گا۔۔۔کون ہےیہ جنت میر۔۔۔“
“
”مس یہ شیٹ بھی میری ہی ہے۔۔۔ میرے دو نام ہیں۔ جنت اور ہبہ۔۔۔ میں ہر سوال دو دفعہ کرتی ہوں“ اسی بچی نے نہایت اعتماد سے جواب دیا۔ مس انعم اس اعتماد پر ہکا بکا رہ گٸیں۔
خیر کچھ لمحوں میں جنت میر بھی مل گٸ اور معاملہ سیکشن ہیڈ تک پہنچا دیا گیا۔ اب دیکھیں ہبہ یا جنت کا کیا بننا تھا۔
#FusionStories #schoollife #schoolgapian #saimanadeem
Saima Nadeem is an emerging poet and a writer of new generation. You can read Saima Nadeem poetry on Urdu point.
To read Saima Nadeem funny Urdu stories, visit Fusionstories.
Read Saima Nadeem Funny Urdu Stories Series #schoolgapian. سکول گپیاں۔ ایک استاد کی زبانی
"Naql chor" from series #schoolgapian is famous Urdu story of Saima Nadeem. Saima Nadeem Urdu stories for kids are very famous. You can read Saima Nadeem's funny, moral and horror Urdu stories. Children and teenager love to read Saima Nadeem Urdu stories.
Urdu stories by Saima Nadeem are very popular in new generation. As Saima Nadeem Urdu stories for kids are new generation focused and moral based, that why people are loving Saima nadeem funny Urdu stories. Teenagers love to read Urdu Stories of Saima Nadeem as Saima nadeem uses simple Urdu in a relateable way . You can also read the complete collection of Saima Nadeem Urdu Stories for kids on fusionstories.