Monday, 7 April 2025

وقت کا خوفناک پرندہ۔ اردو کہانی۔ وانیہ اور آمنہ کی کہانیاں


وقت کا خوفناک پرندہ۔

urdu stories for kids saima nadeem


 اردو کہانی۔ 
وانیہ اور آمنہ کی کہانیاں


 آمنہ اوروانیہ داداابو کے گھر اسلام اباد میں چھوٹی عید منا کرواپس آ رہی تھیں اور دونوں بہنیں کافی اداس تھیں۔ دونوں بہنیں سوتے جاگتےباہر کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اپریل کا مہینہ تھا اور باہر کافی خوشگوار ہوا چل رہی تھی۔تیز چلتی ہوا اور گاڑیوں کی رفتار کی وجہ سے سڑکوں کے کنارے پتے اور کاغذ اڑنے لگتے تھے ابھی وہ جہلم کے پاس پہنچے تھے دونوں طرف پتھریلا پہاڑی راستہ تھا آبادی نہ ہونے کے برابر تھی کہ اچانک

 ایک لال رنگ کا کاغذ اڑتا ہوا آیا اور ان کی کھڑکی سے چپک گیا۔  کچھ اورکاغذ بھی ان کی کھڑکی پر چپک گۓ۔ ان پر عجیب بھوت جیسی شکلیں اور نقشے بنے ہوۓ تھے۔ سڑک پر گاڑیوں کی جگہ گھوڑے چل رہے تھے۔ لوگ تلواریں لے کر جنگ کرنے جارہے تھے۔ گھوڑے ہنہنا رہے تھے۔ لوگ زخمی تھے۔کچھ لوگ درد سے کراہ رہے تھے جیسے وہ مرتے اور بھوت بن جاتے۔  دونوں نے زودار چیخ ماری کہ بابا کو بریک لگانی پڑی۔

 ۔”بابا ہماری کھڑکی پر بھو ت تھے۔ ہماری سڑک پر پرانے زمانے کی جنگ ہورہی تھی اور لوگ مر کربھوت بن رہے تھے“۔ دونوں بولیں۔


 ۔”اور دیکھو سارے کزنوں کے ساتھ مل کر ڈراٶنی ویڈیوز! میں نے منع بھی کیا تھا۔ اب تم لوگوں کو دن میں بھوت نظر آرہے ہیں“۔ ماما غصےسے بولیں۔ بابا نے بھی دونوں کو ڈانٹ پلاٸ اور گاڑی چلا دی۔


 وانیہ کو کچھ عجیب سا محسوس ہوا جیسے یہ سب کاغذ اور منظر کسی طرف اشارہ دے رہے تھے۔ لیکن اس نے اسے وہم سمجھا اور دوبارہ سو گئی۔ کچھ دیر بعد وہ کھاریاں شہر سے گزر رہے تھے اب دونوں طرف آبادی تھی ۔ سڑک کنارے دکانیں تھیں۔ جو عید کا تیسرا دن ہونےکی وجہ سے بند تھیں۔ اب میدانی علاقہ شروع ہو چکا تھا۔اور سڑک کنارے کچھ کچھ فاصلے پر سبز گھاس ، گھنے درخت اور کہیں کہیں کھڑے پانی میں اڑتے بگلے گزرے ہوۓ پرانے وقتوں کی طرح کا منظر دکھاتے تھے۔  وانیہ اپنی ٹیبلٹ پر وڈیوز دیکھ رہی تھی اور آمنہ موباٸل پر گیم کھیل رہی تھی۔ سڑک پر ٹریفک تھی اور دونوں جانب ویسے ہی کاغذ اور پتے اڑ رہے تھے کہ ایک اڑتا ہوا نیلے رنگ کا کاغذ دوبارہ آیا اور امنہ کی کھڑکی سے چپک گیا اس کاغذ پر عجیب سی لکھائی تھی۔ ایک خوفناک پرندے کی تصویر بھی تھی۔ جیسے کوٸ مدد مانگ رہا ہو۔کاغذ پر لال نشان بھی تھے ۔ پھر اچانک ان دونوں کے موباٸل کی سکرین بھی لال ہوگٸ۔ کاغذوں پر بنی شکلیں موباٸل سکرین پر آگیٸں۔ وہ شکلیں اب کسی پرندے کی طرح لگ رہی تھیں۔ ایک خوفناک بہت  بڑا پرندہ بھوتوں کی قید میں تھا۔ اس پرندے کی شکل تو اصلی تھی لیکن اس کی آنکھیں کسی مشین جیسی تھیں جیسے ان سے لال چنگاریاں نکل رہی ہوں۔  ان دونوں سوچا کہ اگر اب چیخ ماری تو بہت ڈانٹ پڑے گی اس لۓ وہ ایک دوسرے سے چپک کر بیٹھ گٸیں۔ کچھ دیر میں موباٸل سکرین ٹھیک ہوگیٸں۔ ماما نے انھیں دیکھا تو ڈانٹنے لگیں۔

۔”ایک تو تم دونوں کے ڈرامے نہیں ختم ہوتے۔ سیدھے ہوکر بیٹھو“۔

 ابھی سفر جاری تھا کہ وہ دریاۓ چناب کے کنارے پہنچ گۓ۔ گاڑی چناب کے پل سے گزر رہی تھی۔ دریا میں پانی کم ہی تھا کہ دریا میں کسی سمندر کی طرح بھنور بننے لگے۔ دریا کا پانی اوپر ہوا اور اس نے ایک بڑے سے بھوت کی شکل بنا لی جو اب ان کی گاڑی کی طرف آرہا تھا کہ اچانک آسمان سے وہی تصویروں والا پرندہ اڑتا ہوا آیا اورپانی کے بھوت کے سر پر چونچ ماری۔ پانی کا بھوت گر کر پانی مییں ڈوب گیا ۔ وانیہ اور آمنہ نے آنکھیں بند کرلیں۔ انھوں نے آنکھیں کھولیں تو وہ پل پار کر چکے تھے۔ اور گجرانوالا شہر کے قریب تھے لیکن اب وہ خوفناک پرندہ ان کی گاڑی کے پیچھے تھا۔ 

۔”ماما بابا آپ لوگوں کو کچھ نظر کیوں نہیں آرہا۔

ہماری گاڑی کےپیچھے ایک خوفناک پرندہ اڑ رہا ہے“۔ وانیہ چیخی


۔”کیونکہ ہم نے عید پر نہ تو پوری رات جاگ کر ڈراٶنی فلمیں دیکھیں ہیں اور نہ ڈراٶنی گیمز کھیلیں ہیں“۔

ماما آرام سے بولیں۔

گجرانوالا کے قریب ان کی گاڑی اچانک رک گٸ۔ 

وقت کا پرندہ۔ اردو کہانی بچوں کے لۓ


۔”لگتا ہے گاڑی میں کچھ مسٸلہ ہوگیا ہے“۔ بابا گاڑی سے نکل کر گاڑی چیک کرنے لگے۔ سڑک کنارے ایک بڑا درخت تھا جس کے نیچے سیمنٹ کا بینچ تھا۔ گاڑی رکتے ہی وہ خوفناک پرندہ اس درخت پر بیٹھ گیا۔ درخت کے چاروں کنارے ہری گھاس تھی۔ کچھ دور ایک ہاتھ والا نلکا تھا۔ پیچھ کی طرف ایک پانی کے جوہڑ میں کنول کے پھول تیررہے تھے

۔”کتنی پراسرا ر جگہ ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے ہم ماضی کے دور میں آگۓ ہوں۔ جب جنگجو اس سڑک سے گزرا کرتے تھے۔ ہاتھی اور گھوڑوں پر جنگ ہوتی تھی۔ پھر ٹینک اور جہازوں سے جنگیں ہونے لگیں۔ انسان بس جنگ ہی لڑتا رہتا ہے“۔ ماما اس جگہ کی ہیبت میں گم تھیں

۔ لیکن وانیہ آمنہ تو کچھ اور سوچ رہی تھیں۔ یہ تو وہی جگہ لگ رہی تھی جو انھیں کھڑکی پر چپکے کاغذوں پر اور موباٸل پر نظر آرہی تھی۔ لیکن اب یہ بات ان دونوں کو اندازہ تھا کہ وہ پرندہ انھیں کوٸ نقصان نہیں پہنچا رہا تھا۔ اچانک آسمان لال ہونے لگا۔ وہ خوفناک پرندہ چیخنے لگا بہت سے کاغذ سڑک پر اڑنے لگے۔ سڑک کچی ہوگٸ۔ گھوڑوں اور پرانے زمانے کے لوگوں کے بھوت ان کی چاروں طرف آگۓ۔ وہ پرندہ ان دونوں کو ایسے دیکھ رہا تھا جیسے وہ مدد مانگ رہا ہو۔


دور سے ایک عجیب س شکل والا شخص آرہا تھا۔ وانیہ کو جیسے سارے اشارے یاد آنے لگے۔ اس نے زمین سے ایک پتھر اٹھایا اور ہوا میں اچھال دیا۔ آمنہ نے موباٸل سے قطب نما یعنی کمپس کھولی اور اس کا رخ موڑ دیا۔ تیز ہوا چلنے لگی۔ہوا میں جنگ کی آوازیں اور گھوڑوں کی آوازیں غاٸب ہونے لگیں۔ پاس والے نلکے پر بہت سے لوگ پانی پینے لگے۔ کچھ لمحوں میں منظر بدلا اور نلکے سے خون آنے لگا۔ خون زمین پر گر کر کالا ناگ بن گیا۔ 

وہ ناگ تیزی سے ان کی طرف آرہا تھا کہ وانیہ نےاپنے موباٸل کی لیزر لاٸٹ ان لوگوں پر ڈالی۔ سورج کی روشنی تیز لال ہوگٸ۔  پرندہ نیچے گر کر مر گیا۔ اسی وقت درخت سے ایک خوبصورت لڑکی باہر آٸ۔اس نے مشینی کپڑے پہنے ہوۓ تھے۔

۔”تم دونوں کا بہت شکریہ جو تم دونوں نے میری جان بچاٸ۔ میں وقت کی مسافر ساٸنس دان ہوں جو تاریخ میں سفر کرتی ہے۔ میں مسقبل کے زمانے سے آٸ تھی لیکن ایک ساٸنس دان نے مجھے پرندہ بنا کرماضی اور حال میں قید کردیا۔ اور میں اک پرندہ بن کر مدد ڈھونڈتی رہی“۔

تم دونوں کا شکریہ۔”

یہ تم دونوں کےلۓ تحفہ“۔

اس وقت کی مسافر لڑکی نے ایک گھڑی نما چھوٹی سی چیز آگے کی۔ 

۔”یہ وقت کی گھڑی ہے۔ اس کی مدد سے تم لوگ بھی ہر چودہویں رات کے چاند میں کسی ایک وقت کے سفر پر جا سکتی ہو“۔

کیا !سچ“۔”

۔”مجھے دو۔۔۔مجھے دو۔۔۔۔“دونوں بہنیں اس گھڑی کو لینےکےلۓ لڑنے لگیں۔

۔”میں بھی اپنی بہن سے ایسے ہی لڑتی تھی“۔ وقت کی مسافر لڑکی اداسی سے مسکرانے لگی۔ 

۔”اب میں جلد اس سے ملنا چاہتی ہوں“۔

یہ کہہ کر وہ لڑکی غاٸب ہوگٸ۔

۔”آجاٶ بھٸ۔۔۔گاڑی ٹھیک ہو گٸ ہے“۔بابا نے آواز دی۔

۔”یہ دیکھیں ماما ہمیں وقت میں سفر کرنے والی گھڑی ملی ہے ۔ اب مجھے ہسٹری کا سبق یاد نہیں کرنا پڑے گا بلکہ میں خود ماضی میں جا کر واقعات دیکھ  لوں گی“۔وانیہ بولی۔

۔”نہیں پہلے میں مستقبل کی جھلکیاں دیکھنے جاٶں گی“۔

آمنہ بولی۔

ماماکچھ نہ بولیں۔


وہ دونوں گاڑی میں بیٹھ گیٸں۔ لاہور تو دور نہ تھا لیکن وہ بہت تھک گٸیں تھیں۔

وہ جلد ہی سو گٸیں۔

تب ہی ان کی ماما کی نظر سیٹ پر رکھی گھڑی پر پڑی۔ 

انھوں نے وہ گھڑی اٹھالی اور اسے دیکھنے لگیں۔ تب ہی دریاۓ راوی کا پل آگیا

۔”پتہ نہیں کہاں کہاں سے چیزیں اٹھا لیتی ہیں۔ عجیب پراسرار سی چیز ہے“۔

مامانےکھڑکی کھولی اور گھڑی کو دریامیں پھینک دیا۔

ختم شد

Like Us & Follow Us