آمنہ اوروانیہ داداابو کے گھر اسلام اباد میں چھوٹی عید منا کرواپس ا رہی تھی اور دونوں بہنیں کافی اداس تھیں۔ دونوں بہنیں سوتے جاگتےباہر کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اپریل کا مہینہ تھا اور باہر کافی خوشگوار ہوا چل رہی تھی۔تیز چلتی ہوا اور گاڑیوں کی رفتار کی وجہ سے سڑکوں کے کنارے پتے اور کاغذ اڑنے لگتے تھے ابھی وہ جہلم کے پاس پہنچے تھے دونوں طرف پتھریلا پہاڑی راستہ تھا ابادی نہ ہونے کے برابر تھی کہ اچانک
ایک لال رنگ کا کاغذ اڑتا ہوا آیا اور ان کی کھڑکی سے چپک گیا۔ کچھ اورکاغذ بھی ان کی کھڑکی پر چپک گۓ۔ ان پر عجیب بھوت جیسی شکلیں اور نقشے بنے ہوۓ تھے۔ سڑک پر گاڑیوں کی جگہ گھوڑے چل رہے تھے۔ لوگ تلواریں لے کر جنگ کرنے جارہے تھے۔ گھوڑے ہنہنا رہے تھے۔ کچھ لوگ درد سے کراہ رہے تھے جیسے وہ بھوت ہوں۔ دونوں نے زودار چیخ ماری کہ بابا کو بریک لگانی پڑی۔
۔”بابا ہماری کھڑکی پر بھو ت تھے۔ ہماری سڑک پر پرانے زمانے کی جنگ ہورہی تھی اور لوگ مر کربھوت بن رہے تھے“۔ دونوں بولیں۔
۔”اور دیکھو سارے کزنوں کے ساتھ مل کر ڈراٶنی ویڈیوز! میں نے منع بھی کیا تھا۔ اب تم لوگوں کو دن میں بھوت نظر آرہے ہیں“۔ ماما غصےسے بولیں۔ بابا نے بھی دونوں کو ڈانٹ پلاٸ اور گاڑی چلا دی۔
وانیہ کو کچھ عجیب سا محسوس ہوا جیسے یہ سب کاغذ کسی طرف اشارہ دے رہے تھے۔ لیکن اس نے اسے وہم سمجھا اور دوبارہ سو گئی۔ کچھ دیر بعد وہ کھاریاں شہر سے گزر رہے تھے اب دونوں طرف آبادی تھی ۔ سڑک کنارے دکانیں تھیں۔ جو عید کا تیسرا دن ہونےکی وجہ سے بند تھیں۔ اب میدانی علاقہ شروع ہو چکا تھا۔اور سڑک کنارے کچھ کچھ فاصلے پر سبز گھاس ، گھنے درخت اور کہیں کہیں کھڑے پانی میں اڑتے بگلے گزرے ہوۓ پرانے وقتوں کی طرح کا منظر دکھاتے تھے۔ وانیہ اپنی ٹیبلٹ پر وڈیوز دیکھ رہی تھی اور آمنہ موباٸل پر گیم کھیل رہی تھی۔ سڑک پر ٹریفک تھی اور دونوں جانب ویسے ہی کاغذ اور پتے اڑ رہے تھے کہ ایک اڑتا ہوا نیلے رنگ کا کاغذ دوبارہ آیا اور امنہ کی کھڑکی سے چپک گیا اس کاغذ پر عجیب سی لکھائی تھی جیسے کوٸ مدد مانگ رہا ہو۔کاغذ پر لال نشان بھی تھے ۔ پھر اچانک ان دونوں کے موباٸل کی سکرین بھی لال ہوگٸ۔ کاغذوں پر بنی شکلیں موباٸل سکرین پر آگیٸں۔ وہ شکلیں اب کسی پرندے کی طرح لگ رہی تھیں۔ ا۔ خوفناک بہت بڑا پرندہ بھوتوں کی قید میں تھا۔ ان دونوں سوچا کہ اگر اب چیخ ماری تو بہت ڈانٹ پڑے گی اس لۓ وہ ایک دوسرے سے چپک کر بیٹھ گٸیں۔ کچھ دیر میں موباٸل سکرین ٹھیک ہوگیٸں۔ ماما نے انھیں دیکھا تو ڈانٹنے لگیں۔
۔”ایک تو تم دونوں کے ڈرامے نہیں ختم ہوتے۔ سیدھے ہوکر بیٹھو“۔
ابھی سفر جاری تھا کہ وہ دریاۓ چناب کے کنارے پہنچ گۓ۔ گاڑی چناب کے پل سے گزر رہی تھی۔ دریا میں پانی کم ہی تھا کہ دریا میں کسی سمندر کی طرح بھنور بننے لگے۔ دریا کا پانی اوپر ہوا اور اس نے ایک بڑے سے بھوت کی شکل بنا لی جو اب ان کی گاڑی کی طرف آرہا تھا کہ اچانک آسمان سے وہی تصویروں والا پرندہ اڑتا ہوا آیا اورپانی کے بھوت کے سر پر چونچ ماری۔ پانی کا بھوت گر کر پانی مییں ڈوب گیا ۔ وانیہ اور آمنہ نے آنکھیں بند کرلیں۔ انھوں نے آنکھیں کھولیں تو وہ پل پار کر چکے تھے۔ اور گجرانوالا شہر کے قریب تھے لیکن اب وہ خوفناک پرندہ ان کی گاڑی کے پیچھے تھا۔
۔”ماما بابا آپ لوگوں کو کچھ نظر کیوں نہیں آرہا۔
ہماری گاڑی کےپیچھے ایک خوفناک پرندہ اڑ رہا ہے“۔ وانیہ چیخی
۔”کیونکہ ہم نے عید پر نہ تو پوری رات جاگ کر ڈراٶنی فلمیں دیکھیں ہیں اور نہ ڈراٶنی گیمز کھیلیں ہیں“۔
ماما آرام سے بولیں۔
گجرانوالا کے قریب ان کی گاڑی اچانک رک گٸ۔
۔”لگتا ہے گاڑی میں کچھ مسٸلہ ہوگیا ہے“۔ بابا گاڑی سے نکل کر گاڑی چیک کرنے لگے۔ سڑک کنارے ایک بڑا درخت تھا جس کے نیچے سیمنٹ کا بینچ تھا۔ گاڑی رکتے ہی وہ خوفناک پرندہ اس درخت پر بیٹھ گیا۔ درخت کے چاروں کنارے ہری گھاس تھی۔ کچھ دور ایک ہاتھ والا نلکا تھا۔ پیچھ کی طرف ایک پانی کے جوہڑ میں کنول کے پھول تیررہے تھے
۔”کتنی پراسرا ر جگہ ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے ہم ماضی کے دور میں آگۓ ہوں۔ جب جنگجو اس سڑک سے گزرا کرتے تھے۔ ہاتھی اور گھوڑوں پر جنگ ہوتی تھی۔ پھر ٹینک اور جہازوں سے جنگیں ہونے لگیں۔ انسان بس جنگ ہی لڑتا رہتا ہے“۔ ماما اس جگہ کی ہیبت میں گم تھیں
۔ لیکن وانیہ آمنہ تو کچھ اور سوچ رہی تھیں۔ یہ تو وہی جگہ لگ رہی تھی جو انھیں کھڑکی پر چپکے کاغذوں پر اور موباٸل پر نظر آرہی تھی۔ لیکن اب یہ بات ان دونوں کو اندازہ تھا کہ وہ پرندہ انھیں کوٸ نقصان نہیں پہنچا رہا تھا۔ اچانک آسمان لال ہونے لگا۔ وہ خوفناک پرندہ چیخنے لگا بہت سے کاغذ سڑک پر اڑنے لگے۔ سڑک کچی ہوگٸ۔ گھوڑوں اور پرانے زمانے کے لوگوں کے بھوت ان کی چاروں طرف آگۓ۔ وہ پرندہ ان دونوں کو ایسے دیکھ رہا تھا جیسے وہ مدد مانگ رہا ہو۔
دور سے ایک عجیب س شکل والا شخص آرہا تھا۔ وانیہ کو جیسے سارے اشارے یاد آنے لگے۔ اس نے زمین سے ایک پتھر اٹھایا اور ہوا میں اچھال دیا۔ آمنہ نے موباٸل سے قطب نما یعنی کمپس کھولی اور اس کا رخ موڑ دیا۔ تیز ہوا چلنے لگی۔ہوا میں جنگ کی آوازیں اور گھوڑوں کی آوازیں غاٸب ہونے لگیں۔ پاس والے نلکے پر بہت سے لوگ پانی پینے لگے۔ کچھ لمحوں میں منظر بدلا اور نلکے سے خون آنے لگا۔ خون زمین پر گر کر کالا ناگ بن گیا۔
وہ ناگ تیزی سے ان کی طرف آرہا تھا کہ وانیہ نےاپنے موباٸل کی لیزر لاٸٹ ان لوگوں پر ڈالی۔ سورج کی روشنی تیز لال ہوگٸ۔ پرندہ نیچے گر کر مر گیا۔ اسوہ درخت سے ایک خوبصورت شہزادی باہر آٸ۔
تم دونوں کا بہت شکریہ جو تم دونوں نے میری جان بچاٸ۔ میں وقت کی شہزادی ہوں جو تاریخ میں سفر کرتی ہے۔ میں مسقبل کے زمانے سے آٸ تھی لیکن ماضی اور حال کر درمیان قہد ہوگٸ۔
تم دونوں کا شکریہ۔
وانیہ اٹھ جاٶ۔ ہم رک رہیں ہیں کچھ دیر میں فریش ہونے کے لیۓ۔ دونوں کی آنکھ کل۔ کیا یہ خواب تھا۔ ارے باہر تو وہی جگہ تھی اور ہوا میں شہزادی ان کا شکریہ ادا کر رہی تھی۔
ان دونوں کو پیا س لگی تھی۔ کتنی تیزبیں اور ایک نقشہ بنا ہوا تھا امنہ نے جلدی سے وانیہ کو بتایا تو اپ۔ ابھی وانیہ اور امنہ اس کاغذ کے اوپر نقشہ سمجھ رہی تھی کہ تیز ہوا کے زور سے وہ کاغذ بھی اڑ گیا
وانیا کو محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے یہ کاغذ کچھ اشارہ کر رہے لیکن وہ مکمل طور پر یقین نہ تھا
ابھی وہ سیالکوٹ شہر کے پاس سے گزر رہے تھے کہ ان کی ماما نے کہا کہ اس راستے پر کتنی تاریخیں گزری ہیں نا ۔
ان کے بابا نے واپسی کا سفر صبح سویرے شروع کیا تھا اور اہستہ اہستہ روشنی پھیل چکی تھیان کی گاڑی اس وقت جہلم کے شہر کے اندر سے گزر رہی تھی دونوں طرف پہاڑوں کی پرسرار خاموشی تھی۔ چوٹی عید منا کر