Friday, 9 May 2025

لاہور کی نہر کا جنوں والا درخت۔ اردو کہانی بچوں کے لۓ

لاہور کی نہر کا جنوں والا درخت۔ اردو کہانی بچوں کے لۓ

لاہور کی نہر کا جنوں والا درخت۔ اردو کہانی بچوں کے لۓ

۔”ارے تم لوگ پھر وہی کہانی سننے کی ضد کرنے لگے جب مسلمان جنوں کا خاندان میرے اوپر آکر آباد ہوگیا تھا حالانکہ میرے پاس گزرے وقت کی اور بھی بہت سی کہانیاں ہیں“۔ لاہور کی نہر کنارے کھڑےساڑھے تین سو سالہ پرانے برگد کے بوڑھے درخت نے سوچتے ہوۓ کہا۔ 

۔”ہاں اور جب اس خاندان کے ایک جن بچے نے ایک انگریز کو پتھر مار دیا تھا وہی والی کہانی۔۔۔“۔


آج چاند کی چودہویں روشن رات تھی اور چڑیا،مینا، کبوتر اور طوطوں کے بچے برگد درخت چاچا سے کہانیاں سننے آۓ تھے۔ برگد درخت چاچا انھیں بتاتے کہ 

۔”جب میں جوان تھا تو مغل شہزادیاں یہاں پانی سیر کرنے آیا کرتی تھی۔ اور دیر تک میری چھاٶں میں بیٹھی نہر کے پانی میں اپنے خوبصورت پاٶں مارتی رہتی تھیں۔ میرے آس پاس چھپن چھپاٸ کھیلا کرتی تھیں۔

اور ایک دفعہ تو ایک شہزادی نہر کے پانی میں گر پڑی۔بس میری پانی میں پھیلی ایک جڑ نے اسے بچایا لیکن  پھر ایک شہزادے نے نہر میں ڈبکی لگاٸ ا ور میری  تعریف اورکوشش اپنے نام کر لی۔ مجھے بہت ہی افسوس ہوا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ شہزادی مجھے پسند کرتی تھی اور۔۔۔“۔

۔” ہمیں پتہ ہے وہ خوب شہزادی مہروش آپ کو دیکھنے ہی یہاں آتی تھی لیکن ہمیں جن والی کہانی سنائیں“۔ ننھا طوطا بیزاری سے بولا۔  

۔”یہاں سےمغل بادشاہوں کے قافلے اور شہزادے گزرتے۔واواہ ہاتھیوں کی شاندار سواریاں ہوتی اور کیا تلوار بازیاں ہوتی“۔

پھرتو لاہور پر انگریزوں کا راج ہو گیادیکھتے ہی دیکھتے اس نہر کنارے گورے لوگ بسنے لگے۔ شہزادے شہزادیاں ماضی بن گئے۔ مجھے عجیب ویرانی سی محسوس ہوتی تھی۔ یہاں تو مسلمان ہندوؤں اور سکھوں کی بستیاں آباد تھیں۔لوگ کہتے تھے کہ وہ غلام بن گئے ہیں۔ غلامی بھی شاید بہت طویل ہو گئی تھی شاید سو برس سے بھی زیادہ۔ پھر اسی نہر کنارے بیٹھ کر لوگ آزادی کے نعرے لگاتے تھے۔

انھی دنوں کی بات ہے جب میرے اوپر مسلمان جنوں کا ایک خاندان آ کر اباد ہو گیا۔ آخر میں بہت گھنا اور طاقتور درخت بن گیا تھا۔ میری جڑیں پانی میں دور تک پھیلی تھیں اور شاخیں تو سورج کو بھی روک لیتی تھیں“۔ 

۔”اپنی تعریفیں نہ کریں برگد چاچا کہانی سناٸیں۔“

۔”اچھا اچھا۔۔۔“

۔”وہ خاندان مجھے کوئی تکلیف تو نہیں دیتا تھا۔ وہ لوگ نہر کے پانی سے وضو کرتے اور نہر کے کنارے نماز پڑھتے۔ نہر کے پانی پر قالین بچھا کر کچھ کھا پی لیتے لیکن اس جن خاندان کے آنے کے بعدپرند چرندے میرے اوپر بیٹھنا بند کر دیاجس کا مجھے بہت افسوس ہوتا۔لوگ میرے پاس سے گزرنے سے ڈرنے لگے۔ مجھے آسیب ذدہ درخت کہنے لگے۔

ہاں مجھے یاد ہے اس دن عید کا دن تھا۔صبح سے ہی بہت چہل پہل تھی۔عید کی نماز کے بعد لوگ ایک دوسرے سے گلے مل رہے تھے۔گھروں سے شیر خرمہ بھنے گوشت، پلاٶ کی خوشبوئیں آرہی تھیں ۔ جنوں کے خاندان نے بھی اپنے تمام خاندان کو آج رات دعوت پر مدعو کیا ہوا تھا۔ جن کی بیوی صبح سے ہی مزیدار کھانے بنا رہی تھی۔ اور جن کے بچے اپنے کزنوں کے ساتھ کھیلنے کے لیے بے تاب تھے۔ دن میں نہر کنارے عید میلا لگا ہوا تھا۔  خاندان کے خاندان نہر کنارے آ رہے تھے۔ اس زمانے میں روشنی تو ہوتی نہیں تھی اس لیے سر شام عید میلہ ختم ہو گیا۔

اب رشتہ دار ایک دوسرے کے گھر دعوتوں پہ مدعو تھے اور عید منائی جا رہی تھی۔ جن کے خاندان نے نہر کے اوپر قالین بچھایا اور کھانا چننے لگے۔ تب بھی ایک درمیانی عمر کا انگریز کہیں سے بھٹکتا ہوا نہر کنارے اگیاوہ میرے نیچے پتھر کے اوپر بیٹھ کر اپنے وطن کو یاد کرنے لگااس کی آنکھوں میں انسو اور چہرے پر اداسی تھی

۔ وہ کہیں سالوں سے نوکری کے سلسلے میں لاہور میں آباد تھا۔ اس نے آس پاس سے کچھ کنکریاں اٹھائیں اور وہ نہر کے پانی میں پھینکتا جاتا اور ساتھ کہتا جاتا۔

۔”لاہور کی لال مٹیالی نہر لندن کی نیلی جھیلوں کی یاد دلاتی ہے۔

اپنا گھر، اپنا بچپن اور اپنی گلی پانی میں ڈبکی لگاتی ہے۔

غم روزگار نے پردیسی کردیا ہے مجھے ورنہ

ہر تہوار اور اتوار مجھے یاد اپنے وطن کی آتی ہے“۔

 وہ اداس تھا لیکن جنوں کے ایک لڑکے کو غصہ اگیا۔ اس انگریز کے پتھر پھینکنے کی وجہ سے ان کی پوری دعوت خراب ہو گئی تھی اس نے پتھر اٹھا کے انگریز پر مارنے شروع کر دیا ہے۔اس جن بچے کے باپ نے منع کیا کہ  یہ جن پردیسی ہے۔ کچھ دیر میں دل ہلکا کر کے چلا جائے گا اس کو تنگ نہ کرو“۔

لیکن وہ جن بچہ باز نہ آیا اورکہا کہ اس کے تو بیوی بچے بھی اس کے ساتھ رہتے ہیں اور یہ تو یہاں قبضہ کرنے آیا ہے کہاں کا پردیسی”!

وہ اس انگریز کو پتھر مارتا رہا انگریز ڈرتا، چلاتا ہوا وہاں سے بھاگ گیا۔

کچھ دن بعد حکومت کے لوگ آئے اور اس مجھے آسیب ذدہ درخت کہہ کر کاٹنے لگے۔ میں جنوں والا درخت مشہور  ہو گیا۔ جن بھلا کہاں انسانوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ ان جنوں نے کچھ دیر انسانوں کو ڈرانے کی کوشش کی لیکن میرے تمام ہی تنے کاٹ دیے گئے۔

جنوں کا خاندان کسی دوسری جگہ آباد ہوگیا۔ جن کے بچے کو اپنی غلطی کا احساس ہوا وہ بچہ اس انگریز کی خبر لینے اس کے گھر گیا تو معلوم ہوا کہ وہ انگریز تو ملیریا کا شکارہو کرمرگیا ہے۔ اس کی قبر  نہر سے کچھ دورلاہورکے گورے قبرستان میں بنی ہی۔ اب اسکی بیوی اپنی تینوں بیٹیوں کے ساتھ واپس جارہی ہے۔

۔”پھر۔۔کیا ہوا۔ وہ جن ابھی زندہ ہے۔ کہاں ہے؟ ہماری باتیں سن تو نہیں رہا۔جنوں کی عمر تو بہت لمبی ہوتی ہے“۔چڑیا کا بچہ بڑی ٹہنی سے اڑ کر چھوٹی پر آکر بیٹھ گیا۔ اسے ڈر لگ رہاتھا۔

۔”پھرکیا ۔۔۔۔پھر مسلمانوں کو آزادی مل گٸ ۔ بہت سالوں بعد آزادی ملی تھی لوگ بہت خوش تھے۔پاکستان بہت قربانیوں کے بعد بنا تھا ۔ نیا ملک نہیں کہانیاں تھی لیکن وہ جن کا بچہ بہت شرمندہ اور اداس تھا۔وہ اکثر میرے کنارے آ کر 

بیٹھتا اور کچھ سوچتا رہتا۔کچھ عرصے کے بعد وہ کہیں چلا گیاشاید اس انگریز کے ملک جاکر رہنے لگا ہے۔ اب تو اس بات کو سو سال سے بھی زیادہ ہو گۓ ہیں“۔ 

۔”کیا وہ پھر کبھی واپس نہیں آیا“۔ ننھی مینا نے پوچھا

ا۔”آگیا ہے پوچھو کیا پوچھنا ہے؟۔ اندھیرے میں ایک شاخ پر سے ایک خوفناک سی آواز ائی۔تمام پرندے سہم گئے کیونکہ ان کے سامنے شاخ پر ایک جن بیٹھا تھا۔ 

۔”گھبراؤ نہیں یہ جن مجھے کبھی ملنے اتا ہےاور پردیس کی کہانیاں سناتا ہے۔ “۔

۔”ہاں پیارے پرندوں سنو پردیس کی کہانیاں۔ کبھی روزگار کے لۓ اور کبھی جنگ کے لۓ ۔۔۔پردیسی ہونا آدم زاد کی قسمت ہے لیکن وطن کی محبت تو جیسے دل کی جڑوں میں بس جاتی ہے بالکل اس برگد چاچا درخت کی طرح۔ وقت الٹا چلنے لگا ہے۔اب لال مٹیالی نہروں کے باسی یورپ کی نیلی جھیلوں کنارےبیٹھ کر اپنے وطن کو یاد کرتے ہیں۔ اور جن بچے ان کو ستاتے ہیں “۔ 

بس شاید یہی زندگی ہے

وہ جن یہ کہہ کر تو غائب ہو گیا لیکن پرندے ابھی تک ڈرے ہوئے تھے۔ برگد کا درخت خاموش تھا اور لاہور کی نہر مال روڈ کےکنارے بہہ رہی تھی اور کہہ رہی تھی 

اپنے وطن سا کچھ بھی نہیں

دنیا بڑی جتنی جیسی ملی 

Like Us & Follow Us