Advertisement

Thursday, 2 September 2021

کیا میری سکول کی دوست ایلیین تھی؟--SCHOOL MEY ALIEN DOST BاN GAI- URDU KAHANI Wania Aur Amna Ki Urdu Kahanian Series

KYA MERI SCHOOL KI DOST ALIEN THI- URDU KAHANI

Wania Aur Amna Ki Urdu Kahanian Series

LEVEL: Primary, Middle & High school

The story is written on an account of world space week in october.

 

کیا میری سکول کی دوست ایلیین تھی؟

 

'میں ایک خلائ مخلوق ہوں جو یہاں کئ صدیوں پہلے آئ تھی لیکن


 واپس نہ جاسکی- آج میں تمھارے اس خلائ جہاز کے زریعے واپس جا پاؤنگی،' عروہ عجیب طریقے سے اس گتے کے بنے ہوۓ خلائ جہاز کی طرف بڑھ رہی تھی-

"اچھا تو تم ایک خلائ مخلوق تو پھر تمہارے سینگ یعنی اینٹینا کہاں ہے؟'

'اور تین آنکھیں بھی نہیں تمہاری،' وانیہ اور قرۃ العین ہنسنے لگیں-

'یعنی کہ تم ایک ایلین  ہو تو پھر میں ایک یونانی دیوتا ہوں جو آسمان سے اتر کر دنیا سے بدلہ لینے آیا ہوں اور یہ خلائ جہاز میرا ہے،' مزمل نے گتے سے بنے ہوۓ بڑے سے تھری ڈی خلائ جہاز میں داخل ہو کر اسے چلانے کی اداکاری کی-

 

'کیا کر رہے ہو- یہ ٹوٹ جاۓ گا- بند کرو یہ ڈرامہ- یہ کوئ اصلی خلائ جہاز نہیں بلکئ ہمارے سکول کا ساٰئنس پراجیکٹ ہے- پہلے ہی پورا ایک ہفتہ لگا ہے اسے بنانے میں اور اب تم اس کی تباہی نہ پھیرو ورنہ مس زینب ہمیں بغیر  خلائ جہاز کے خلا میں بھیج دیں گی،' وانیہ نے چیختے ہوۓ کہا-

 

'اصلی نہیں لکن بالکل اصلی جیسا ہے- دیکھیے جج صاحبان اس کے تین حصے ہیں- دو راکٹ بوسٹر،  ایندھن والا ٹینک، اور مدار یعنی شٹل جہاں خلائ عملہ بیٹھتا ہے- اس میں تین سے پانچ لوگ بیٹھ سکتے ہیں،'  قرۃ العین ہاتھ میں مائیک پکڑنے کی اداکاری کرتے ہوۓ بولنے لگی-

 

'رکو، مجھے کمپیوٹر چلانے دو- پیچھے سارا خلا کا نظام چلے گا پھر پریکٹس کریں گے،' وانیہ بولی-

 

'رہنے دو کتنا مشکل ہے خلائ جہاز کا نظام یاد کرنا- اچھا بھلا ہم نظام شمسی کا ماڈل بنا رہے تھے- بس نو سیارے اور ایک سورج ایک گتے پر لگاؤ، نظام شمسی کا ماڈل تیار،' قرۃ العین بولی- اب وہ آرام سے پیچھے بیٹھ کر مونگ پھلییاں کھا نے لگی-

 

'نو نہیں آٹھ سیارے ہیں، پلوٹو تو ہمییں کب کا چھوڑ گیا،' مزمل اس کی بات کاٹتے ہوۓ بولا-

 

' اس نے خود نہیں چھوڑا بلکہ باقی سیاروں نے اسے خلا میں بھٹکنے کے لۓ چھوڑ دیا - ہماری تمام طاقت اور توانائ چھین لی گئ- اب وقت آگیا ہے کہ میں اپنی دنیا کو اس کی طاقت واپس کروں- اسے نظام شمسی کا حصہ بناؤں- پلوٹو اب خلا کے کسی بھی کونے میں ہو وہ اس غداری کا حساب لے کر رہے گا- -  میں اسے ڈھونڈ نکالوں گی ،' عروہ خلائ جہاز کا  ہر طرف سے معائنہ کر رہی تھی

URDU KAHANI-ALIEN
IMAGE CREDIT: VECTEEZY

 

'اس کا ایندھن والا ٹینک بڑا اور مضبوط ہونا چاہیے لیکن ہم ایک لمبی اڑان بھر سکیں- اس کو چلانے کا کنٹرول دو لوگوں کے پاس ہونا چاہیے-  اس کا لانچنگ پیڈ اوپر جانے کی صحیح  طاقت دینے کے قابل نہیں لگ رہا،' عروہ  نے مزمل کی طرف دیکھ کر کہا جو گتے اور تاروں سے اسٹیئرنگ اور گئیر بنا رہا تھا-

'وانیہ کیا تم اپنی کی چین کے ڈھیر میں سے کچھ ہمارے جہاز کے لۓ دے سکتی ہو- یہ چیزیں ہمارے بہت کام آسکتی ہیں،' عروہ نے وانیہ کے بستے کے ساتھ لگی رنگ برنگی چابیاں لٹکانے والے گچھے کو پکڑتے ہوۓ کہا-

'بالکل نہیں، تم تو لگتا ہے کوئ انگریزی فلم دیکھ کر آئ ہو- خلائ سفر،' وانیہ چڑتے ہوۓ بولی-- وہ سب عروہ کی حرکتوں پر ہنس رہے تھے

'میرے بھائ کا ماڈل۔۔۔۔،'

اور تم ایسے کرو کہ پلے گروپ میں چلی جاؤ وہاں بناتے ہیں بچے  نظام شمسی کا ماڈل- تمہارے بھائ نے بھی ایسا ہی بنایا ہو گا،' مزمل مزید اس کے بھائ کے ماڈل کی تعریفیں نہیں سن سکتا تھا-

 

'جی نہیں میرے بھائ کی جماعت نے اتنا زبردست نظام شمسی بنایا ہے کی تم سب حیران رہ جاو گے- بالکل اصلی لگتا ہے- سب سیارے گھومتے ہیں اور سورج بھی اصلی کی طرح چمکتا ہے- سائز میں بھی بہت بڑا ہے،' قرۃ العین اتراتے ہوۓ بولی-

 

سکول میں شہر کی سب سے بڑی سائنسی نمائش کی تیاریاں زوروشور سے جاری تھیں- ہرسکول اور جماعت سب سے بہترین سائنسی نمونہ یا ماڈل بنانا چاہتی تھی- نمائش کے آخر میں بہترین ماڈل بنانے والے سکول اور جماعت کو انعامات دئیے جانے تھے- نمائش لاھور کے ایکسپو سینٹر میں ہونی تھی-غرض کہ مقابلہ بہت سخت تھا اور وقت کم- آج چھٹی سے پہلے ہر جماعت نے اپنا پراجیکٹ جمع کروا کر جانا تھا-

 

'بچو آپ لوگ کتنے آرام سے بیٹھے ہیں اور ابھی تک آپ لوگوں نے خلائ جہاز کا رنگ بھی مکمل نہیں کیا،' مس زینب جلدی سے رنگ والی ڈبیوں کی طرف بڑھیں- مس زینب  کے جماعت میں آتے ہی وہ سب ایک دم کھڑے ہو گۓ-

'اور یہ پاکستان کے خلائ ادارے سپارکو کا نام بھی لکھ دیں'

'مس یہ عروہ کہہ رہی تھی کہ ہم اس کے لایا ہوا رنگ بھریں اس سے خلائ جہاز کا گتہ سخت اور مضبوط ہو جاۓ گا ،' وانیہ نے ایلومینیم رنگ کی ڈبی آگے کی-

'یہ تو بالکل اصلی جیسا رنگ ہے- صرف عروہ ہی اس پراجیکٹ میں سنجیدہ نظر آرہی ہے- ٹھیک ہے یہ کر لیں اور مزمل میں نے آپ کو خلائ جہاز کا گئیر، بریک اور چلنے کا نظام بنانے کو کہا تھا، کتنا کام رہ گیا،'

'مس یہ بنایا ہے میں نے لیکن سمجھ نیہں آرہی کہ اسے کیسے لگاؤں،' مزمل گتے اور ایلومینیم سے بنا ہینڈل لے کر آگے بڑھا-

'ہاں بس وڈیو گیمز کھیلنا آتا ہے ، کام نہیں،' مس زینب ہینڈل لے کر خلائ جہاز میں لگانے کی کوشش کرنے لگیں-

' وڈیو گیم میں تو میں ساری خلائ مخلوق کو ہرا کر ملکی وے کے سارے ستاروں اور سیاروں کا بادشاہ بن جاتا ہوں- یہ جہاز کونسا اڑے گا ،' مزمل اکڑتے ہوۓ بولا-

 

    'اچھا کام ختم کریں، ہمیں سکول کی وین ایکسپو سنٹر لے جاۓ گی- شام تک ہمیں وہاں سارا نظام لگانا ہے- اس لیپ ٹاپ میں تمام ضروری مواد ہے- خلا ک بارے میں تمام معلامات ڈال دیں ہیں میں نے- اس کو بھی لگا کر چیک کر لیں گے- ' انھوں نے اپنا لیپ ٹاپ ایک طرف رکھتے ہوۓ بتایا-

مس زینب اور سب بچے کام میں لگ گۓ- چھٹی کے بعد وہ سکول کی وین میں ایکسپو سنٹر پہنچے- وہاں بہت سے سکول اپنے  سائنسی ماڈل سیٹ کر رہے تھا- -کسی سکول نے نظام انہظام کا ایسا ماڈل بنایا کہ کھانا جسم میں چلتا اور ہضم ہوتا نظر آرہا تھا اور کسی نے ایک پتے کو خوراک بناتے ہوۓ دکھا کر سب کو حیران کرنا تھا- دھواں چھوڑتے آتش فشاں، کیمیائ طریقوں سے بنتی آکسیجن،  آکسیجن ماسک ، بیماریاں پھیلانے والے جراثیم، اور ایٹی نمونے، بہت ہی زبردست ماڈل تھے ہر طرف-

 

وہ لوگ خلائ حصے کی جانب بڑھے جہاں اور بھی کئ خلا کے متعلق پراجیکٹ تھے- بڑی بڑی سکرینوں پر خلا کی فلمیں چل رہی تھیں- بچے یو ایس بی کے زریعے اپنے ماڈل کے بارے میں بتانے کی مشق کر رہے تھے- مزمل اور عروہ اب تک مس زینب کی مدد کر رہے تھے-  وانیہ اور قرۃ العین کام ختم کر کے دوسرے سکولوں کے ماڈل دیکھنے لگیں-

 قرۃ العین کے بھائ کے سکول نے تو نظام شمسی کے ساتھ ساتھ خلا بازوں کے لباس بھی بناۓ ہوۓ تھے- وہ واقعی شاندار تھری ڈی ماڈل تھا-

'ارے واہ! ہمیں یہ آئیڈیا کیوں نہیں آیا-' وانیہ کو خلائ لباس بہت اچھے لگ رہے تھے- وہ خیالوں میں کو خلائ لباس پہن کر، اور آکسیجن ماسک لگا کر خلائ دنیا کی سیر کر رہی تھی کہ مس زینب کی آواز آئ-

'چلو بچو، باقی کام صبح کریں گے- جلد اندھیرا ہو جاۓ گا،' مس زینب سامان سمیٹتے ہوۓ بولیں-

'عروہ آ جا ئیں – کیا خلائ جہاز پر گھر جانے کا ارادہ ہے،' مس زینب نے عروہ کو آواز دی جو جہاز کے اندر بیٹھی اسے اُڑانے کی کوشش کر رہی تھی-

 'اچھا آپ لوگ وین کی طرف آئیں، مجھے اپنی ایک پرانی دوست نظر آئ ہے- میں اس سے دعا سلام کر کے آتی ہوں،' اچانک مس زینب دوسرے سکول کی ایک استاد کو دیکھ کر آگے بڑھ کر ہال سے باہر چلی گئیں –

'اگر سئر و تفریح ختم ہو گئ ہو تو یہ لیپ ٹاپ بند کرو،' مزمل ایک طرف دیکھتے ہوۓ بولا- وانیہ نے  لیپ ٹاپ اتار کر ہاتھ میں پکڑلیا-

 ہال مکمل طور پر خالی ہو چکا تھا-

'عروہ چلو،' وانیہ نے اپنی پانی کی بھری بوتل بیگ میں ڈالتے ہوۓ کہا-

'ہاں یاد آیا، عروہ تو ایک ایلیئن یعنی خلائ مخلوق ہے اور اس نے اس خلائ جہاز ک ذریعے اپنے سیارے کو ڈھونڈنا ہے،' مزمل ہنسنے لگا-

 

'یہ تو ایندھن بھی لائ تھی، جہاز اڑانے کو،' وانیہ نے اسے جہاز کے ٹینک میں ٹھوس اور مائع ایندھن ڈالتے دیکھا تھا-

 

'دیکھو، میں اپنے بھائ کے سٹال سے خلائ لباس اور یہ آکسیجن ماسک بھی لے آئ ہوں- بہت مشکل سے دیئے ہیں انھوں نے-آخر تک منت کی میں نے اس کی- وہ کہہ رہے تھے پہلے ہی ہماری کچھ  چیزیں غائب ہیں- ہم یہ کل اپنے ماڈل کے ساتھ رکھیں گے ،' قرۃ العین نے جوش میں سب کو سامان دکھایا-

 وہ سب خوش ہو کر سامان خلائ جہاز کے مدار میں رکھ رہے تھے کہ اچانک خلائ جہاز کا دروازہ بند ہو گیا-

 

 لمحوں میں ہی ان کا جہاز ہال میں چکر کھانے لگا-  قریب پڑے ماڈل گر رہے تھے- ان کا خلائ جہاز اڑنے لگا- کچھ ہی دیر میں خلائ جہاز ہال کی کھڑکی سے باہر آگیا- وہ تیزی سے آسمان کی طرف جارہا تھا-

'عروہ روکو اسے، ہمیں نیچے اتارو،' وہ تینوں چیخنے لگے-

 

'مجھے معاف کر دینا، دوستو، لیکن مجھے ہر صورت واپس جانا ہے اور میں یہ موقع نہیں گنوا سکتی تھی،' عروہ واپس مڑتے ہوۓ بولے-

اور ہاں اب اس کے سر ایک اینٹینا اور ماتھے پر ایک آنکھ بھی تھی- وہ سب ڈر گۓ-

 

'ہاں جانا ہے تو جاؤ، ہمیں کہاں لے کر جا رہی ہو،' قرۃ العین بولی-

'دیکھو مجھے یقین آگیا ہے کہ تم ایک خلائ مخلوق ہو، بس ہمیں زمین پر ہی رہنے دو،' مزمل نے ڈرتے ہوۓ کہا-

'سنو، یہ  خلائ جہاز بھی لے جاؤ، ہم اور بنا لیں گے-  تم ہمیں چھوڑ آؤ،' وانیہ ڈرتے ہوۓ بولی-

 

'یہ اب ممکن نہیں،' عروہ کے جواب کے ساتھ  کوئ چیز  تیزی سےان کے خلائ جہاز سے ٹکرائ- ان کا خلائ جہاز بری طرح ڈگمگانے لگا- عروہ جہاز سیدھا کرنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن مسلسل کچھ پتھر جہاز سے ٹکرا رہے تھے- خلائ جہاز اب زمین سے نکل چکا تھا-

 

'رکو، مجھے چلانے دو،' مزمل نے جلدی سے جہاز کا دوسرا اسٹئیرنگ سنبھال لیا-  کچھ ہی دیر میں جہاز صحیح چل رہا تھا-

 

'شکریہ، اب ہم خلا میں داخل ہو چکے ہیں- پہلے مجھے نظام شمسی کے دو شروع کے سیاروں عطارد اور زہرہ سے گرمی اور توانائ لینی ہے- زمین سے آکسیجن تو میں لے ہی چکی ہوں- باقی میں تمہیں بعد میں بتاؤں گی-  اور یہ سب نظام شمسی کے سیارے ہیں جو ہمارے دشمن تھے، مجھے پلوٹو کو ڈھونڈنا ہے،' عروہ جہاز کو تیزی سے اوپر لے کر جارہی تھی-

 

کچھ دیر میں شدید گرمی سے ان کا دم گھٹنے لگا-

 

'بس چند منٹ دوستو، ' عروہ نے باہر لگے ایک ٹینک میں عطارد اور زہرہ سے لائ گیسیں بھریں وہاں سے نکل آئ- اب وہ مریخ سیارے کے قریب تھے جب انھوں نے دیکھا کہ جہاز کے ایک پر کو آگ لگ کئ تھی- جہاز پھر سے ڈکمگانے لگا تھا-

 

'مجھے معلوم ہے کہ کیا کرنا ھے،' قرۃ العین جلدی سے بولی- اس نے خلائ لباس پہنا، آکسیجن ماسک لگایا اور  اپنی سکول والی پانی کی بوتل لے کر خلائ جہاز سے باہر آگئ- باہر بہت اندھیرا تھا اور اس کے لۓ اپنا توازن قائم رکھنا بھی مشکل ہو رہا تھا-

قرۃ العین نے بہت مشکل سے پروں پر لگی آگ بجھائ اور بحفا ظت اندر آگئ- وہ بہت خوش تھے- اب وہ بھی چاہتے تھے کہ عروہ کو اس کے سیارے تکہ پہنچا دیں- لیکن پلوٹو تھا کہاں یہ تو عروہ بھی نیہں جانتی تھی-

 

مشتری سیارے کے پاس پہنچتے ہی عروہ خوفزدہ ہو گئ- مشتری اور زحل سیاروں کے درمیان ایک پتھروں کا جہان ہے جو نیچے والے سیاروں کی طرف جانے والی طاقت اور توانائ روک لیتا ہے- یہ بہت ظالم پتھر ہیں- اکثر زمین پر بھی آنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن راستے میں ہی جل جاتے ہیں- کاش کہ ہمارے پاس بھی ان سے بچنے کا کوئ راستہ ہوتا-' عروہ بہت احتیاط سے بچتے ہوۓ خلائ جہاز چلارہی تھی-

'یہ کتنے سست چل ریے ہیں- کیا یہ بس پتھر سو رہے ہیں؟' وانیہ نے باہر دیکھتے ہوۓ پوچھا-

'سو نہیں رہے- انھیں جب تک توانائ نہ چاہیے ہو یا خطرے کا احساس نہ ہو تو یہ ایسے ہی رہتے ہیں- سورج سے دور یہاں دن اور رات بہت لمبے ہوتے ہیں- سورج کی کشش ثقل بھی کمزور ہوتی ہے- لیکن یہ کسی بھی وقت خبردارہو سکتے ہیں-' عروہ کا یہ کھنا تھا کہ خلا میں شدید گڑگڑاہٹ ہوئ اور تمام پتھر جیسے جاگ گۓ- اب ان کا خلائ جہاز خلائ پتھروں کی پٹی کے درمیان میں تھا اور پھنس چکا تھا- وہ سب پتھر ان کے خلائ جہاز کو ایک طرف گھسیٹ رہے تھے- ان کا جہاز پر کنٹرول ختم ہو گیا تھا-

'کیا اب ہم بھی اس خلا میں بھٹک جائیں گے اور کبھی واپس نہیں جا پاہیں کے،' مزمل پریشانی سے بولا-

'پریشان مت ہو، میں کوئ نہ کوئ حل نکال لوں گی،' عروہ لیپ ٹاپ پر کچھ دیکھ رہی تھی- قرۃ العین بھی اس کے ساتھ بیٹھ کر خلا کے بارے میں جو اس نے ہید کیا تھا وہ بتانے لگی-

'یہ سوچنے کا نہیں بلکہ کچھ کرنے کا وقت ہے دوستو- مزمل تم جہاز سنبھالو، قرۃ العین تم مجھے پتھروں کی پوزیشن بتاؤ اور عروہ تمیہں تو میں تمھورے سیارے پہنچا کر ہی پوچھوں گی،'    وانیہ نے خلائ لباس پہنا، ماسک لگایا اور اپنا بیگ لے کر خلائ جہاز سے باہر آگئ-

 اس نے پہلے اپنی ٹارچ والی کی چین نکالی اور اسے جلا دیا- شدید اندھیرے میں روشنی دیکھ کر سارے پتھر اس طرف متوجہ ہو گۓ- لیکن اب بھی جہاز ان کے کنٹرول میں تھا-

 

'اچھا تو تم اس طرح نہیں مانو گے۔- اب وانیہ نے اپنے بستے سے اپنی باجے والی کی چین اتاری اور بجانی شروع کر دی- ہمیشہ خاموشی میں رہنے والے پتھروں کے لۓ اتنا شور ناقابل برداشت تھا- جہاز چھوڑ کر وہ ایک طرف بھاکنے لگے-

 

'رکو، رکو، یہ تحفے میں لے جاؤ- کام آۓ گی،' وانیہ نے اپنی چمکتے پتھر والی کی چین خلا میں اچھالی تو سب پتھر اس کی طرف بھاگے- جلد ہی وہ سب پتھروں کی پٹی پار کر چکے تھے-  اب شدید سردی کی وجہ سے ان کے دانت بج رہے تھے- سورج دور ہوتا جارہا تھا اور ان کا جہاز بھی باربار اپنے مدار سے نکلنے کی کوشش کر رہا تھا- خلائ جہاز بری طرح ٹوٹ چکا تھا-  انھوں نے دیکھا کہ عروہ کی دو آنکھوں میں آنسو تھے

'اہک تو یہ رونے کی عادت مجھے زمین کے لوگوں سے ملی ہے-' اس نے جلدی سے آنسو صاف کر لۓ- اب وہ نسبتاً سکون سے   یورینس اور نیپچون کو پار کررہے تھے-

'ایک وقت تھا کہ میں ہیاں بہت آیا کرتی تھی- ہورینس اور نیپچون ہمارے ہمساۓ تھے- ہم سورج سے بہت دور تھے- سورج سے گرمی، روشنی اور توانائ لینے کے لۓ ہم ان سیاروں کے محتاج تھے-لیکن اس کے بدلے ہم بھی انہیں کئ گیسیں دیتے تھے- پھر ان سب نے مل کر ہمیں اتنا کمزور کر دہا کہ ہم اپنے مدار سے نکل گۓ- توانائ کی تلاش میں ہمارے لوگ اوپر کے سیاروں میں چلے گۓ- لیکن میں نہیں جانتی کہ ان میں سے کتنے واپس آسکے- میں تو یہ بھی نیہں جانتی کہ میرا سیارہ کہاں ہے- مجھے معاف کردینا کہ میری وجہ سے تمہیں بھی مصیبت ہوئ،' عروہ نے انھیں اپنے بارے میں تفصیل سے بتایا-

'ویسے تو تم  تین آنکھوں اور سر پر اینٹینا کے ساتھ بالکل ایک کارٹون لگ رہی ہو،' مزمل بولا-

 

'اور ہمیں تم پر بہت غصہ بھی آرہا ہے،' وانیہ بولی-

 

'لیکن پھر بھی ہم تمہیں تمیارے سیارے تک پہنچا کر ہی رہیں گے تا کہ تم زمین سے آنسو نہیں بلکہ مسکرانا لے کر جاؤ،'  '    قرۃ العین نے مسکراتے ہوۓ کہا-

 

مزمل نے بیٹری کی مدد سے ایک بلب جلالیا جس سے انھیں روشنی اور حرارت ملنے لگی- وہ لیپ ٹاپ کے ذریعے قریبی ستاروں اور سیاروں کی فریلوینسی کا جائزہ لے رہے تھے کہ اچانک عروہ چیخ پڑی- وہ انھیں نیچے اترنے کا کہہ رہی تھی- وہ اپنی زبان میں بھی کچھ بول رہی تھی- انھوں نے خلائ جہاز ایک نیلی برف کی تہہ پر اتار دیا- عروہ بھاگ کر باہر چلی گئ- کچھ ہی دیر میں وہاں عروہ جیسے کئ اور مخلوق بھی آگئ- وہ سب عروہ کو دیکھ کر بہت خوش تھے- ایسا لگ ریا تھا کہ وہ عروہ کو کچھ بتانا چاہتے ہیں- ان سب کا رنگ بالکل کالا یا گہرا خاکی تھا-

'ایک منٹ پہلے میری بات سن لیں-اب ہم نظام شمسی میں واپس جا سکتے ہیں- دیکھو میں روشنی، حرارت، کئ گیسیں اور بہت کچھ لائ ہوں،' عروہ نے بیٹریاں، گیس ٹینک کی طرف اشارہ کیا-

لیکن اب ہم  نظام شمسی میں واپس نیہں جانا چاہتے- خلا میں بھٹکتے ہم  ایک دوسرے نظام میں داخل ہو گۓ جو نظام شمسی سے بڑا اور طاقتور ہے- دیکھو ہماری رنگت بھی کتنی خبصورت ہو گئ ہے اس نظام میں،' ان میں سے ایک نے عروہ کو سمجھایا-

'کیا یہ کالی رنگت کو خبصورت کہہ رہے ہیں؟'

'نیہں تمیہں خبصورت کہہ ریے ہیں- عروہ کی ساری محنت تو بے کار گئ- ویسے ہی یہاں آجاتی-' وانیہ، مزمل اور قرۃ العین ایک طرف کھڑے سرگوشی میں بات کر رہے تھے-

'ایسا نہیں ہے، یقیننا یہ سب ہمارے بہت کام آۓ گا- اس سب کی مدد سے ہم ایک طاقت ور دنیا کی طرف سفر شروع کریں گے-' ایک خلائ مخلوق جو سب کی سربراہ لگ رہی تھی، آگے آتے ہوۓ بولی-

'دوستو میرا ساتھ دینے اور مجھے مسکراہٹ کا تحفہ دینے کا بہت شکریہ! عروہ ان کے قریب آئ-

 

 انھوں نے دہکھا کہ عروہ انھیں دیکھ کر مسکرا رہی تھی- وہ ان کے قریب آرہی تھی کہ اسے اچانک سے اپنی امی کی آواز سنائ دی-

'اٹھو وانیہ سکول نہیں جانا! آج تمہارے سکول میں سائنسی نمائش ہے- میں اور تمہارے بابا بھی کچھ دیر میں وہاں آیئں گے- آمنہ تمھارے ساتھ جا رہی ہے- اسے اپنی وین میں لے جانا اور ساتھ رکھنا-'

'اوہ تو یہ سب خواب تھا، عروہ اور خلائ مخلوق،' وانیہ سوچ کر ہنسنے لگی-

 اس نے سکول کے راستے میں آمنہ کو اپنا خواب سنایا-

'کاش میں بھی آپ کے خواب میں ہوتی،' آمنہ بولی-

 جیسے ہی وہ نمائش کی جگہ پہنچے تو عجیب عالم تھا- لگ رہا تھا جیسے کل یہاں کوئ زلزلہ آیا تھا- کئ خلائ لباس اور آکسیجن ماسک غائب تھے- آکیجن سلنڈر بھی نہیں مل رہا تھا-

مس زہنب اپنے خلائ جہاز کے پاس پایشان کھڑی تھیں- خلائ جہاز اب ایک تباہ حال، ٹوٹا پھوٹا ڈبہ لگ رہا تھا- اس کے ایک پر پر جلنے کا نشان تھا اور داسرے پر ایک چسوٹی سی ٹرچ والی کی چین لٹک رہی تھی-

وانیہ نے جلدی سے اپنا بیگ دیکھا تو وہاں چمکدار پتھر والی کی چین بھی نہیں تھی-

مزمل اور قرۃ العین بھی آچکے تھے اور خاموش کھڑے تھے-

'چلیں !سب ٹھیک کریں اب- عروہ کیوں نہیں آئ اب تک- ' مس زینب انتظامیہ سے بات کرنے جارہی تھیں کہ پرنسپل کو دیکھ کر رک گئیں-

 

'ہمیں کچھ وقت ملا ہے سب ٹھیک کرنے کا اور انتظامیہ بھی ہماری مدد کرے گی- عروہ اپنی آنٹی کے ساتھ رات کو ملک سے باہر چلی گئ ہے- اس نے یہ خط بھجوایا ہے جس میں اس نے زمین کے انسانوں اور خاص طور پر اپنے دوستؤں کا شکریہ ادا کیا ہے اسے مسکراہٹ کا تحفہ دینے کے لۓ،' سکول کی پرنسپل نے مس زینب کو بتایا-

' اس طرح اچانک چلی گئ! کیا اس نے آپ لوگوں کو بتایا تھا اپنے جانے کا؟' مس زینب نے ان تینوں کی طرف دیکھا-

وہ تینوں خاموشی اپنا ماڈل ٹھیک کرتے رہے اور کوئ جواب نہیں دیا- 


ختم شد 

URDU KAHANI SPACE


چلیں بتائیں کیا سیکھا؟ 

س-نظام شمسی میں کتنے سیارے ہیں؟

س- اگر آپ کو موقع ملے تو آپ کونسے سیارے میں رہنا پسند کریں گے-

 بھیجیں ؟نظام شمسی بنائیں اور ہمیں 

ہمارا صفحہ پسند کریں  @fusionstories

 


وانیہ اور آمنہ دو بہنیں ہیں۔ وانیہ بڑی ہے۔ آمنہ چھوٹی ہے-  وانیہ کو نئ چیزیں بنانے کا شوق ہے- آمنہ کو موبائل پر کھیلنا اچھا لگتا ہے-آئیں سنیں ان کی مزیدار کہانیاں ہماری کہانی کے نۓ سلسلے میں-

. All copyrights are reserved۔Wania Aur Amna kiKahanian@fusionstories

 

  Advertisement

Advertisement