وہی آغاز وہی اختتام ہوا
یہ سال بھی ایسے تمام ہوا
ٹھہرے موسم اس طرح چار
ہر رنگ نے بناۓ فسانے ہزار
پتلی تماشے سارا سال رہے
سازشوں کے بنتے جال رہے
نہ بنا خلق خدا کا وارث
غریبوں پر سے گزرے حوادث
چور چور کے شور میں مر گیا
شو پالش لۓ سردی میں بھیگا تھا جو
تسبیح کے دانے گرتے رہے
مقدس روح کے ترانے بجتے رہے
گرتے رہے آنسو سرکار کے محل پر
جو بھول بیٹھے حساب اجل پر
اس آسماں کےستارے ٹوٹ کر
جا بسے پردیس نہ آۓلوٹ کر
چادر دیکھ کر پاٶں پھیلاتے رہے
پھر بھی بن لیا قرض چکاتے رہے
دن رات سوچتے رہے تخت نشین
کیسے ملے دو گز سے زیادہ زمین
حکمرانوں کی بے حسی دیکھ کر
عوام ڈھونڈتے رہے گناہ ہاتھ پر
یوں آگےکاسفرپیچھے کو مڑا
اب تو مداری بھی حیران کھڑا
بہت شور مچاتی رہی سوٸیاں
کبھی رُکتی نہیں یہ گھڑیاں
بے ضمیروں کو معجزے نہیں ملتے
بغیر سوچ کےصفحے نہیں پلٹتے