سکول گپیاں #
- قاسم کی کاپی
۔”ماشاءاللہ۔۔۔۔اورآہستہ آہستہ آٸیں۔۔۔۔ ابھی تو دس منٹ
ہی ہوۓ ہیں۔۔۔۔ پورا پیریڈ گزرنے دیں“۔۔۔
مس ملیحہ دروازے میں کھڑی چیخ رہی تھیں۔
۔”مس وہ کمپیوٹر لیب سے ہی دیر سے آۓ ہیں۔ مس ناٸلہ
کاپیاں چیک کر رہی تھیں"۔
۔”بس ٹیچرز پرڈال دیں سارا ملبہ۔۔۔ جو آدھی کلاس آٸ بیٹھی ہے وہ کیسے آگٸ۔۔۔ اب جو آۓ گا وہ پورا پیریڈباہر
کھڑا رہےگا"۔
مس ملیحہ نے دروازہ بند کر دیا۔
۔”کتابیں کھولیں۔۔۔۔ علی نظم کی
پڑھاٸ شروع کریں"۔
ابھی علی نے پڑھنا شروع ہی کیاتھاکہ دھڑام سے جماعت کادروازہ کھلااور حواس باختہ سا قاسم سامنے کھڑا تھا۔
۔”چلیں جی ۔۔دیکھیں کون تشریف لایا ہے۔۔۔ کلاس کے ٹاپر بچے بھی دیرسے آٸیں
گے“۔۔۔
۔”مس میری کمپیوٹر کی کاپی نہیں مل رہی“۔
قاسم نے حواس باختہ ہو کر بتایا۔
۔”مل جاۓ گی۔۔۔ابھی بیٹھ کر اردو کا پڑھیں“۔
قاسم پریشان بیٹھ گیا۔
قاسم جماعت کا لاٸق بچہ تھا لیکن عادتاً ہر وقت تھوڑا پریشان رہتا تھا۔ جماعت میں کوٸ اس کا قریبی دوست بھی نہیں تھا۔
ابھی پڑھا ٸ ختم ہی ہوٸ تھی۔
قاسم پھر کھڑا ہوگیا۔
۔”مس وہ میں اپنی کاپی ڈھونڈ لوں۔ سب کےبستے چیک کرلوں“۔
۔”قاسم کاپی مل جاۓ گی۔ ابھی پندرہ منٹ بھی نہیں ہوۓ آپ کی کاپی کو گم ہوۓ۔ ۔۔۔اچھا دیکھیں سب کے بستے۔ باقی جماعت کاپیاں کھولیں اور سوال
جواب لکھیں“۔
بچے کام کرنے لگے۔ مس ملیحہ ساتھ ساتھ ہدایات دے رہی تھیں۔
“مس۔۔۔۔۔”
ایک تقریبارونے والی آوازآٸ۔
“۔”مس میری کاپی نہیں ملی۔۔۔قاسم پوری جماعت کے بستے دیکھ کر مس کے پاس کھڑاتھا۔
۔”مس میں۔۔۔ دوبارہ کمپیوٹر لیب میں دیکھ آٶں“۔
۔”اوہ اوہ۔۔۔۔قاسم تو یہ اردو کاکام کون کرے گا۔۔۔اچھا جاٸیں دیکھ آٸیں۔۔۔۔اتنا پریشان نہ ہوں۔۔۔مل جاۓ گی کاپی“۔۔
قاسم جلدی سے باہر چلا گیا۔ بچے دوبارہ کام می ںمصروف ہوگۓ ۔ کافی دیر بعد قاسم واپس آیا۔
اور جاکر اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد بچوں کی آواز آٸ۔
۔”مس حسن رو رہا ہے۔ اس کی
کاپی نہیں ملی“۔
۔”کیسے ملے گی۔۔۔۔اتنا پریشا ن جو ہے۔۔۔۔آرام سے ڈھونڈیں تو مل جاۓ گی تھوڑا پرسکون تو
ہو“۔
۔”مس اس کا بہت زیادہ کام تھا
اس میں“۔
۔”حسن مجھے پتہ ہے کاپی مل جاۓ گی۔۔۔ابھی ایک پیریڈ بھی نہیں گزرا۔ دوبارہ اپنا بستہ دیکھیں“۔
۔”مس بستے میں نہیں ہے“۔۔۔۔حسن نے روندی آواز میں بستہ دیکھتے ہوۓ بتایا۔
۔”اچھا اردو کاکام تو کریں۔۔کمپیوٹر کی کاپی مل جاۓ گی“۔
مس ملیحہ نے تقریبا بات کو ختم کیا۔ بچے کام کرنے لگے۔لیکن قاسم ابھی تک پریشان تھا۔ اس نے اردو کی کاپی تو نکال لی لیکن کام شروع نہیں کر پا رہا تھا۔
اچانک عبد الاحد کھڑا ہوا۔
۔”مس میں قاسم کی کاپی کمیوٹر لیب میں دیکھ آٶں۔ممجھے لگتا ہے وہیں ہوگی“۔
عبدالاحد حسن کی طرف دیکھ کر سوچتے ہوۓ بولا۔
۔”جی دیکھ آٸیں۔۔۔۔قاسم کی کاپی کا مسٸلہ تو شیطان کی آنت ہوگٸ ہے“۔
عبد الاحد چلا گیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد واپس آگیا۔ اس کے ہاتھ میں کاپی تھی۔
۔”یہ لو وہیں پڑی تھی“۔
قاسم کی رونی شکل پر بڑی سی مسکراہٹ آ ٸ جو جلد ہی معصوم سی شرمندگی میں بدل گٸ
کیونکہ مس ملیحہ اسے بہت غور سے دیکھ رہی تھیں۔
۔”مس وہ مجھے کمپیوٹر لیب
میں نظر نہیں آ ٸ تھی“۔
۔”نظر کیسے آتی۔ آنکھوں میں اتنے موٹے آنسو اور دماغ میں اتنی منفی پریشانی بھی تھی۔
اب آپ بچے نہیں ہیں۔ ساتویں جماعت میں ہیں۔ پریشانی کو سکون کے ساتھ حل کرنا سیکھیں۔ خود پریشان ہوں نہ
دوسروں کو پریشان کریں“۔
۔”چلیں مس قاسم کی کاپی ملنے کی خوشی میں باقی پیریڈ فری دے دیں“۔
بچے جذباتی ہو کر بولے۔
۔”ام م ۔۔۔۔۔۔چلیں پانچ منٹ ہی رہ گۓ“۔ ۔چلیں کیا یاد کریں گے باقی کام کل کر لیں گے“۔
مس ملیحہ کی بات سنتے ہی
بچے خوشی سے چلانے لگے۔
جی۔۔۔ ہم آپ کو یہ بتانا تو بھول ہی گۓ کہ قاسم کو اس دن صرف کاپی ہی نہیں ملی تھی
بلکہ ایک اچھا دوست بھی مل گیا تھا اور وہ دوست تھا عبدالاحد۔۔۔۔اب حسن کی پریشان رہنے کی عادت بھی کم ہورہی تھی۔
ختم شد